تحریر: مسعودجاوید
ہمہ جہتی تعمیر وترقی ہی کسی ملک، قوم ، کنبہ یا فرد کے ترقی یافتہ ہونے کا پیمانہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانان ہند عموماً بھیڑ چال چلتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں بیدار ہوں گے تو تمام تر توجہ کا مرکز تعلیم ہی کو بنائیں گے۔ صحت ، معیشت ، صفائی ، سیاست کے موضوعات پر گفتگو بھی شجر ممنوعہ سمجھیں گے۔
تعلیم کے میدان میں الحمدللہ پچھلے بیس پچیس سالوں میں کسی حد تک بیداری ہوئی ہے۔ ملی تنظیموں نے تو نہیں علاقائی سطح پر ملک و ملت کے لئے فکر مند شخصیات بالخصوص جنوبی ہند میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں جن میں قابل ذکر و ستائش مرحوم ڈاکٹر ممتاز احمد کا قائم کردہ الامین ایجوکیشنل سوسائٹی بنگلور ،مرحوم ڈاکٹر ، پی اے انعامدار صاحب مہاراشٹر کوسموپولیٹن ایجوکیشن سوسائٹی پونے، ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب شاہین ایجوکیشنل سوسائٹی بیدر کرناٹک اور مرحوم ڈاکٹر فخرالدین صاحب مسلم ایجوکیشنل ، سوشل ، کلچرل سوسائٹی حیدرآباد ، کے علاوہ رحمانی 30، حفظ پلس ڈاکٹر ، حافظ پلس انجنیئر کے علاوہ مرکزی نوکر شاہی یو پی ایس سی اور ریاستی نوکر شاہی کے مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے کوچنگ کا نظام متعدد مقامات پر چلایا جا رہا ہے۔ ملت کے نوجوانوں کے لیے دردمند حضرات مساجد کے بالائی حصے کو اس کے لئے استعمال کر رہے ہیں ۔ لیکن یہ سب composite development کا صرف ایک پہلو ہے۔
معاشی بحران کا بادل دن بدن ہمارے سروں سے قریب ہو رہا ہے۔ ماہرین اقتصادیات اور معیشت سے متعلق اداروں اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ متوسط طبقہ عنقریب ادنی طبقہ میں تبدیل ہو جایے گا اور ادنی طبقہ خط افلاس سے نیچے چلا جائے گا ۔
اس وارننگ کے مدنظر ملت کے درد مندوں کو لوگوں کی معیشت مضبوط کرنے ، بطور قرض چھوٹے تاجروں کو مالی اعانت کرنے اور جو بے روزگار ہیں مگر سرمایہ کی قلت کی وجہ سے کچھ کر نہیں پا رہے ہیں ان کی نہ صرف رہنمائی بلکہ سرمایہ دے کر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت ہند کی متعدد رفاہی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے میں ہمارے مستحق افراد پیچھے رہ جاتے ہیں اس کی ایک وجہ ملی اداروں میں ایسا کوئی میکانزم کوئی شعبہ نہیں جو اسکیموں کو مانیٹر کر کے بر وقت مستحقین کو متنبہ کرے اور کاغذی کارروائی یا ان لائن اپلائی کرنے میں مدد کرے۔ تعلیمی اسکالر شپ کی طرح حکومت ہند کیSmall and medium-sized enterprisesاسمال اینڈ میڈیم بزنس SME اسکیم ہے اس کی جانب لوگوں کو توجہ دلانے اور مستفید ہونے کے طریقہ کار بتانے کی ضرورت ہے۔
ملک کی مختلف ریاستوں سے ملت کے بے شمار افراد ملازمت کے لئے خلیج میں ہیں ان کو اپنے پس انداز روپے پر انٹریسٹ سود کمانے کی ہوس نہیں ہوتی ۔ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ سود حرام ہے لیکن مسلمانوں کا ایسا کوئی بیت المال نہیں ہے جہاں ان کی جمع شدہ رقومات کی ضمانت ملے ۔ برسہا برس سے بلا سودی بینک کاری کی بات ہو رہی ہے مگر اب تک زمین پر نہیں اتر سکی ہے۔ کل ہند سطح پر قائم کرنے کی منصوبہ بندی ترک کرے مقامی سطح پر شہر کے معزز قابل اعتماد اور مالی طور پر آسودہ حضرات یہ کام کر سکتے ہیں ۔ شہر کے ہر طبقہ خیال کے لوگوں کا تعاون انہیں حاصل ہوگا اور اس طرح لوگ ان کے پاس اپنے پس انداز روپے رکھیں گے جسے متعین مدت کے لیے سونا یا کسی اور شئ کے عوض چھوٹے کاروباریوں کو بطور قرض دے سکتے ہیں ۔ ان سے یومیہ، ہفتہ وار یا ماہانہ وصولی کے لئے بعض افراد کی تقرری کی جا سکتی ہے ۔ جہاں تک آفس اور اسٹاف کا خرچ کا تعلق ہے تو بیت المال جمع شدہ رقم کے نصف سے تجارت مشارکہ ، مرابحہ کرے۔ یہ محض ایک شکل ہے یہ ممکن نہیں تو کوئی اور شکل نکل سکتی ہے اس لئے کہ جہاں چاہ ہوگی وہاں راہ نکلے گی۔