پیوش رائے
اترپردیش کے سابق وزیر اور سماج وادی پارٹی کے دبنگ لیڈر اعظم خان اور ان کے بیٹے عبداللہ اعظم کو اس ماہ کے شروع میں جعلسازی کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ نے ضمانت دی تھی، لیکن ضمانت ملنے کے فوراً بعد رام پور پولیس نے متعلقہ کیس میں ایک اور چارج شیٹ داخل کی اور ان دونوں کے خلاف مجرمانہ سازش کی غیر ضمانتی دفعہ کے تحت مقدمہ درج کیاہے ۔اب انہیں ضمانت کے لیے نئی درخواست دائر کرنا ہوگی۔
جیل میں بند اعظم خاں پر تقریباً 100 معاملوں میں درج ہیں اور انہیں نچلی عدالتوں سے کئی جھٹکے ملتے رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے رامپور کی ایک ضلع عدالت نے ایک نچلی عدالت کے ذریعہ جاری حکم کے خلاف دائر ایک اپیل کو خارج کردیا۔ نچلی عدالت نے حکم دیا تھا کہ محمد علی جوہر یونیورسٹی کے مرکزی دروازے کو توڑ دیا جائے ۔
ساتھ ہی عدالت نے حکم دیا کہ مخالف فریق کو 1.63کروڑ روپے ہرجانہ میں اور 4.55لاکھ روپے فی ماہ کا بھگتان تب تک ادا کیا جائے جب تک کہ قبضہ ہٹانہیں لیا جاتا۔
اعظم خاں ، ان کی ایم ایل اے اہلیہ تزئین فاطمہ اور بیٹے عبداللہ اعظم نے گزشتہ سال فروری میں عبداللہ اعظم کے دو پیدائش سرٹیفکیٹ سے متعلق ایک کیس میں رام پور عدالت کے سامنے خودسپردگی کردی تھی ۔ اس میں ایک مقامی بی جے پی لیڈر آکاش سکسینہ کی شکایت کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی ۔
تزین فاطمہ تقریباً 11 ماہ جیل میں گزارنے کے بعد گزشتہ سال دسمبر میں ضمانت پر باہر آئیں، جبکہ ان کے شوہر اعظم خاں اور ان کا بیٹا عبداللہ ابھی تک سیتاپور جیل میں بند ہیں۔
ایک تجربہ کار سیاستداں اور ملائم سنگھ یادو کے خاص اعظم خاں کا خراب وقت تب شروع ہوا جب ان کے ڈریم پروجیکٹ ’جوہر یونیورسٹی ‘ نے زمین قبضہ کرنے، منی لانڈرنگ اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی شکایات کی وجہ سے حکام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ۔
اعظم خاں250 ایکڑ میں پھیلے اس پرائیویٹ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں، یونیورسٹی کے ویب سائٹ کے مطابق اس کا مقصد ہے ، ’ سماج کے پسماندہ طبقات کے ساتھ – ساتھ مسلم اقلیتوں کے بیٹے اور بیٹیوں کے لیے تعلیم کو ممکن بنانے کے اپنے سماجی مشن کے لیے پرعزم ہے۔‘ تاہم اترپردیش میں نئی حکومت کے بعد سے یہ یونیورسٹی تمام غلط وجوہات کی بنا پر خبروں میں ہے۔
2019 میں ماجرہ علی گنج گاؤں کے مقامی لوگوں کی شکایات کی بنیاد پر دو درجن سے زائد مقدمات درج کیے گئے تھے۔انہوں نے الزام لگایا تھا کہ وہ انہیں ان کی زمین سے محروم کردیا گیا اور زمین کو یونیورسٹی کے قبضے میں لے لیاگیا ۔
ایک سال بعد 2020 میں ضلع انتظامیہ نے قبضہ شدہ زمین کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور ریونیو ریکارڈ میں موجود ناموں کی بنیاد پر ان میں سے زیادہ تر کسانوں کو ان کی زمین واپس کردی گئی تھی۔
2009 میں ایک دوسرے معاملے میں مقامی پولیس نے چھاپہ ماری کرکے جوہر یونیورسٹی سے 2,000سے زیادہ نایاب ،چوری کی کتابیں برآمد کیں۔ مقامی پولیس محکمہ نے یہ کارروائی تب کی تھی جب رام پور میں 250 سال پرانے اورینٹل کالج ( جسے پہلے مدرسہ عالیہ کے نام سے جانا جاتا تھا) کے پرنسپل نے 9000 سے زیادہ کتابوں کی چوری کے متعلق ایف آئی آر درج کرائی تھی۔
اتر پردیش پولیس کےذریعہ ریلیز کے گئے ڈیٹا کے مطابق سماج وادی پارٹی کے لیڈر اعظم خاں کے خلاف رامپور میں اب تک 98 معاملے درج کئے گئے ہیں۔ جن میں سے 81 معاملے 20 مارچ 2017 کے بعد درج کے گئےہیں۔ یہ مقدمات آئی پی سی کی سنگین دفعات جیسے جبراً وصولی، دھوکہ دہی اور زمین پر قبضہ اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت درج کیے گئے ہیں۔
عظیم نگر پولیس اسٹیشن میں 12 جولائی ،2019 کے درمیان ایک ہی طرح کی دفعات میں اعظم خاں پر 24 مقدمے دائر کئے گئے ۔ اس طرح کوتوالی پولیس اسٹیشن میں ان کے خلاف 29 اگست 2019 سے اب تک انہیں دفعات میں 13 مقدمے درج کئے گئے ۔ رام پور میں ان کے خلاف درج کئے گئے 98 معاملوں میں سے 81 میں چارج شیٹ داخل ہوچکی ہے ۔ وہیں جانچ ایجنسیوں سمیت مقدموں بغیر دفعات لگائے حتمی رپورٹ جمع کردیں ۔
سال 2017 کے پہلے ا ن کے اوپر رام پور میں جو 17 مقدمے درج ہوئے تھے ، ان میں سے 9 ریاستی سرکارنے کئے تھے ۔ رام پور کے علاوہ مراد آباد میں تین اور فیروز آباد میں ایک مقدمے میں ان کے خلاف چارج شیٹ بھی داخل ہوچکی ہے ۔
اس سال مارچ کے اوائل میں سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کی قیادت میں جوہر یونیورسٹی سے لکھنؤ تک 9 روزہ لانگ مارچ نکالا گیا تھا جس کا مقصد اعظم خاں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا تھا۔ اس کے بعد سماج وادی پارٹی نے بی جے پی پر دشمنی کے جذبے سے کام کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ اعظم خاں کو کئی معاملات میں پھنسایا گیا ہے۔
سماج وادی پارٹی کے ترجمان جوہی سنگھ نے کہا تھا ،’پارٹی پوری قانونی تعاون فراہم کر کے ان کے پریوار کے ساتھ کھڑی ہے۔ اکھلیش جی رام پور گئے تھے ، وہ خاندان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور بہترین قانونی ٹیم کیس لڑ رہی ہے۔ اکھلیش جی بھی قانونی ٹیم کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔ ‘
پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اعظم خاں آنے والے انتخابات میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔ جوہی سنگھ نے کہا ، ’وہ پارٹی کے بانی رکن ہیں۔ رام پور کے ہر کارکن کی شناخت ان سے جڑی ہے ۔ وہ ان کا علاقہ ہے، جسے انہوں نے ترقی کی ہے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ پارٹی کوئی ایسا فیصلہ لے گی جس میں وہ شامل نہ ہوں۔‘