نئی دہلی :(ایجنسی)
نئی دہلی کی جواہر لال یونیورسٹی میں بائیں بازو کے طلباء اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے درمیان تصادم گرمایا ہو ا ہے۔ بتا دیں کہ بائیں بازو کے طلباء نے الزام لگایا ہے کہ اے بی وی پی کے لوگ انہیں گوشت کھانے سے روک رہے ہیں۔ ساتھ ہی، اے بی وی پی کا کہنا ہے کہ گوشت پیش کرنا کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن اصل مسئلہ رام نومی کی پوجا میں خلل ڈالنا تھا۔
آپ کو بتا دیں کہ اس تنازع کے درمیان ہندو مہاسبھا کے صدر سوامی چکرپانی نے حکومت سے جے این یو کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک خط میں کہا کہ جے این یو کا نام ویر ساورکر کے نام پر رکھا جانا چاہئے۔ بتا دیں کہ یہ خط وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے کے نام لکھا گیا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے، ’’جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے کچھ علیحدگی پسند اور ٹکڑے ٹکڑے گینگ ملک دشمن عناصر کے ساتھ مل کر ملک کے خلاف نعرے لگاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے کہنے پر ملک کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں اور اس کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہیں۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ کبھی ہندو دیوی دیوتاؤں کی توہین کی جاتی ہے اور کبھی ہماری تحریک آزادی کے رہنما ویر ساورکر کی توہین کی جاتی ہے۔
خط کے ذریعے انہوں نے کہا کہ میں جے این یو کے نام ویر ساورکر یونیورسٹی اور بابری مسجد کی حمایت میں نعرے لگانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی درخواست کرتا ہوں۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ جے این یو ایک بار پھر تنازع میں ہے۔ درحقیقت رام نومی کے دن منعقدہ پوجا کے تعلق سے اے بی وی پی نے الزام لگایا ہے کہ کاویری ہاسٹل میں رہنے والے طلبہ رام نومی کے دن کیمپس میں ’ہون پوجن‘ کر رہے تھے، جس کی وجہ سے بائیں بازو کے لوگوں نے پوجامیں خلل ڈالنے کی کوشش کی۔
دوسری طرف جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کا الزام ہے کہ اے بی وی پی کے طلبہ نے نفرت کی سیاست کے اپنے ایجنڈے سے کاویری ہاسٹل کا ماحول خراب کیا ہے۔ وہ لوگ تشدد کی طرف مائل ہوگئے۔ یونین کا کہنا ہے کہ اے بی وی پی میس کمیٹی کو رات کے کھانے میں تبدیلی کرنے کی دھمکی دے رہی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ نان ویجیٹیرین کھانا پیش نہ کیا جائے۔
اس کے علاوہ بائیں بازو کی تنظیم کا الزام ہے کہ اے بی وی پی کے لوگوں نے میس کے لوگوں اور بائیں بازو کے طلباء کی پٹائی کی۔ ایسے میں جے این یو انتظامیہ نے طلباء سے یونیورسٹی کیمپس میں امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔