نئی دہلی:
اتر پردیش کے کاس گنج میں ایک نابالغ لڑکی کی گمشدگی کے سلسلے میں حراست میں لئے گئے الطاف کی گزشتہ سال نومبر میں مشتبہ حالت میں پولیس حراست میں موت کے بعد ان کے والد ابھی بھی انصاف کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔
انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں الطاف کے والد چاند میاں اپنے تین کمروں کے گھر میں پلاسٹک کی شیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا 22 سالہ بیٹا الطاف جب بھی گھر آتا تو وہیں لیٹ کر موبائل فون میں گیم کھیلتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ محلے کے بچے الطاف کے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتے تھے اور وہ اکثر الطاف کے آنے پر اسے گھیر کر فون میں گیم کھیلنے کی اپنی باری کا انتظار کرتے تھے ۔
چاند میاں کہتے ہیں، ’جب وہ اپنا کام ختم کر کے گھر آتا تھا تو مشکل سے ہی گھر سے باہر نکلتا تھا۔ اسے بچوں کے ساتھ وقت گزارنا بہت پسند تھا اور بچے روزانہ اس سےملنے آتے تھے۔ یہ سوچنا کہ اس جیسا کوئی شخص کسی کو اغوا کر لے گا اور پھر اسے پانی کے پائپ سے پھانسی لگا لے گا، مجھے اس پر ابھی بھی یقین نہیں آتا۔ ‘
واضح رہے کہ گزشتہ سال 9 نومبر کو الطاف کی پولیس حراست میں مشتبہ حالات میں موت ہو گئی تھی۔ پولیس نے اسے خودکشی قرار دیا تھا جب کہ لواحقین نے الزام لگایا تھا کہ اس کی موت پولیس کی وحشیانہ پٹائی سے ہوئی تھی۔ الطاف کو ایک نابالغ لڑکی کی گمشدگی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔ یہ لڑکی الطاف کی موت کے ایک ہفتے بعد برآمد ہوگئی تھی۔
اس معاملے میں کاس گنج کے کوتوالی تھانے کے پانچ پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ الطاف نے ٹوائلٹ کے دو فٹ اونچے نل کےپائپ سےاپنی جیکٹ کی ڈوری کو باندھ کر خودکشی کرلی ہے ۔ اس معاملے میں نامعلوم پولیس اہلکاروں کے خلاف دفعہ 302 (قتل) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
گزشتہ 10 فروری کو الہ آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو کاس گنج کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی موجودگی میں الطاف کی لاش کو نکالنے اور دوسرا پوسٹ مارٹم کرانے کا حکم دیا تھا۔
دراصل الطاف کے اہل خانہ نے درخواست دائر کی تھی کہ وہ پہلی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے نتائج سے مطمئن نہیں ہیں۔
معاملے کی اگلی سماعت چار ہفتے بعد کرنے کا حکم دیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ وہ یہ حکم دے رہے ہیں کیونکہ درخواست گزار نے جو تصویر پیش کی ہے اس میں متوفی الطاف کو پانی کے ایک پائپ سے خود کو لٹکا دیکھا گیاہے، جس کی اونچائی کچھ دو فٹ ہے۔ اہل خانہ کے لیے عدالت کا یہ حکم ان کے دعوؤں کی تصدیق کے طور پر سامنے آیا ہے۔
چاند میاں کہتے ہیں، ’ایسے بھی دن تھے، جب میرے ہاتھ پیروں نے کانپنا بند نہیں کیا ،مجھے اسپتال لے جایا گیا کیونکہ میرا بلڈ پریشر بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ جوان بیٹے کو کھونا آسان نہیں اور اب انصاف کی جنگ مشکل ہو گئی ہے لیکن عدالت نے ہماری بات سنی۔‘
بتادیں کہ الطاف اپنے تین بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اور یومیہ مزدوری کر کے گھر والوں کی مدد کرتا تھا۔ ان کی موت کو تین ماہ گزر چکے ہیں لیکن ان کے خاندان نے ابھی تک اس حادثے کو قبول نہیں کرپائے۔ کوتوالی تھانے کے ٹوائلٹ میں الطاف کی لاش کی تصویریں آج بھی انہیں پریشان کرتی ہیں۔
چاند میاں نے کہا، ’الطاف کا وزن تقریباً 60 کلو تھا اور وہ لمبا بھی تھا۔ بہت ساری چیزیں ہیں جو ٹھیک فٹ نہیں ہوتی ہیں۔ اگردوسرے پوسٹ مارٹم سے اور معلومات سامنے آئیں تو ثابت ہو جائے گا کہ اس کی خودکشی دراصل جرم کو چھپانے کے لیے دکھائی گئی تھی۔‘
عدالت کے مطابق لاش سونپنے کا یہ سارا عمل 10 دن میں مکمل کرنا ہو گا۔ کاس گنج کے ایس پی بوترے روہن پرمود نے کہا، ’’عدالت کے حکم کے مطابق لاش کی نکالی جائے گی کر ایمس بھیجی جائے گی۔ واقعے کی تحقیقات پہلے ہی سے جاری ہیں۔ اگر دوسرے پوسٹ مارٹم سے نئی معلومات آتی ہیں تو اسے تحقیقات کا حصہ بنایا جائے گا۔
اس وقت عدالتی انکوائری جاری ہے اور 36 میں سے 7 گواہوں پر جرح ہو چکی ہے۔ باقی گواہوں میں سے دو سے جمعرات کو جرح کی جائے گی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ الطاف 19 سالہ لڑکی کے اغوا میں ملوث تھا اور اسی وجہ سے اس نے خودکشی کی۔ اس کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کیا گیا تھا اور موت کے سلسلے میں نامعلوم ملزم کے خلاف الگ ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس کے ساتھ ہی تھانہ کوتوالی کے ایس ایچ او سمیت پانچ پولیس افسران کو معطل کر دیا گیا۔