لوک سبھا انتخابات 2024 کے پہلے مرحلے کے لیے جمعہ کو ووٹنگ ہوئی۔ 21 ریاستوں کی 102 لوک سبھا سیٹوں پر تقریباً 68.29 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ لکشدیپ میں 83.88 فیصد رہا اور سب سے کم صرف 48.88 فیصد بہار میں ٹرن آؤٹ کو لے کر قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہونے لگا ہے۔ جمعہ کو پہلے مرحلے میں بہار کی چار سیٹوں جموئی، نوادہ، گیا اور اورنگ آباد پر ووٹنگ ہوئی۔ اس میں جموئی میں 50 فیصد، نوادہ میں 41.50 فیصد، گیا میں 52 فیصد اور اورنگ آباد میں 50 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ گزشتہ انتخابات کے مقابلے ان چار سیٹوں پر ووٹنگ فیصد میں زبردست کمی دیکھی گئی ہے۔
2019 کے لوک سبھا انتخابات میں جموئی سیٹ پر 57.8 فیصد، نوادہ سیٹ پر 51.7 فیصد، گیا سیٹ پر 58.1 فیصد اور اورنگ آباد سیٹ پر 55.5 فیصد ووٹنگ ہوئی تھی۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان نشستوں پر گزشتہ سال کے مقابلے میں 5 سے 10 فیصد کم ووٹنگ ہوئی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار ووٹنگ فیصد میں اس کمی کو بی جے پی کے لیے نقصان کی علامت سمجھ رہے ہیں۔ یہ مرکز کی مودی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ صورت حال بہار میں اس وقت دیکھنے میں آئی جب زیادہ تر امیدوار نئے تھے، پھر بھی ووٹروں نے انتخابات کو لے کر جوش نہیں دکھایا۔ بی جے پی اور این ڈی اے بہار کو لے کر پریشان ہو سکتے ہیں کیونکہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے کو بہار سے 40 میں سے 39 سیٹیں ملی تھیں۔ایسے میں اگر اس بار بہار کی ریاضت غلط ہوتی ہے یا پچھلے انتخابات کی طرح نتائج نہیں آتے ہیں تو این ڈی اے اور بی جے پی کو بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ جمعہ کو شدید گرمی کی وجہ سے ٹرن آؤٹ بھی کم رہا۔ درجہ حرارت 40 سے 42 ڈگری کے قریب تھا۔ ایسے میں ووٹرز گھروں سے کم ہی نکلے۔ بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے بنیادی ووٹر جو زیادہ آمدنی والے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں سب سے کم ووٹ ڈالے ہیں۔ایسے میں بی جے پی کو ان سیٹوں پر نقصان ہو سکتا ہے۔ دیہی علاقوں کے مقابلے شہری علاقوں میں ووٹ ڈالنے کے لیے کم ووٹرز گھروں سے نکلے۔
بہار کی ان چار سیٹوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اس بار این ڈی اے کارکنوں میں 2014 اور 2019 کا جوش و خروش نظر نہیں آیا۔ اس بار اونچی ذات کے ووٹروں نے، جنہیں بی جے پی کا بنیادی ووٹ سمجھا جاتا ہے، پہلے جیسا جوش و خروش نہیں دکھایا۔
وہ پہلے سے کم ووٹ ڈالنے نکلے ہیں۔ دوسری طرف خبر ہے کہ ماضی کے ووٹر بالخصوص یادو اور دلت برادری کے ووٹ ڈالنے کے لیے بڑی تعداد میں گھروں سے نکلے ہیں۔اب یہ تو 4 جون کو پتہ چلے گا کہ کم ووٹنگ سے کس کو نفع اور نقصان ہوتا ہے تاہم کم ووٹنگ کے حوالے سے قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہو گیا ہے۔