حماس کے ایک سینیئر اہلکار نے اشارہ دیا ہے کہ ان کی جماعت اسرائیل کو تسلیم کرسکتی ہے۔ اس طرح حماس فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کا حصہ بننے کے لیے فلسطینی دھڑوں کے درمیان تقسیم کو ختم کرنے کی جانب قدم آگے بڑھا سکتی ہے۔حماس رہ نما موسیٰ ابو مرزوق نے پیر کے روز المنیٹر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ "آپ کو باضابطہ مؤقف پر عمل کرنا چاہیے۔ سرکاری مؤقف یہ ہے کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن نے ریاست اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے”۔
بات قابل ذکر ہے کہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن [پی ایل او] حماس اور اسلامی جہاد کے سوا بیشتر فلسطینی دھڑوں کے لیے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ چھتری ہے۔ اس نے1993ء میں "اسرائیل کے وجود کے حق” کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا تھا جس کے بعد پی ایل او کو فلسطینیوں کی نمائندہ قرار دیا گیا۔
اس تناظر میں حماس کے سیاسی بیورو کے رکن ابو مرزوق نے کہا کہ "ہم PLO کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور اس کے وعدوں کا احترام کرتے ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ "حماس اب بھی 1967ء کی سرحدوں پر ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی کوشش کر رہی ہے”۔ابو مرزوق نے زور دیا کہ اسرائیلیوں کو دوسروں کی قیمت پر اپنے حقوق حاصل نہیں کرنے چاہئیں۔ انہوں نے زور دیا کہ "انتخابات اس بات کا تعین کریں گے کہ غزہ کی پٹی کو کون چلاتا ہے”۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت کسی بھی ایسے اقدام پر بات چیت کے لیے تیار ہے جو فلسطینی مزاحمت کو مستقبل کے انتظامات سے باہر کیے بغیر جنگ کو روکنے کا باعث بنے۔
ہنیہ نے کل ایک ٹیلی ویژن تقریر میں مزید کہا کہ "ہم کسی بھی ایسے خیال یا اقدامات پر بات چیت کے لیے تیار ہیں جو جارحیت کو روکنے کا باعث بنیں اور فلسطینیوں کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی سطح پر متحد کرنے کے لیے دروازے کھولیں”۔حماس کے رہنما نے خبردار کیا کہ غزہ میں انتظامات یا فلسطین کے مسئلے پر حماس اور مزاحمتی دھڑوں کے بغیر عمومی طور پر کوئی بھی شرط ایک سراب اور دھوکہ ہوگا۔