تحریر:اے-رحمان
جنگ ہائے عظیم اول و دوم نے پوری انسانیت کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔ جان و مال کا بے انداز اتلاف ہوا اور جاپان پر گرائے گئے ایٹم بمو ںکی لرزہ خیز تباہ کاریو ں کی یادیں اور نشان اب تک باقی ہیں۔ نازیوں کے غیر انسانی مظالم اور انسانیت کی مکمل پامالی دیکھ کر جب اتحادیوں نے نازی جرمنی کے خلاف فیصلہ کن جنگ کرنے کا منصوبہ بنایا تو اس جنگ کے چار اہداف مقرر کیے جن کا حصول انسانیت کی بقا کے لیے ضروری سمجھا گیا۔ یہ چار اہداف تھے چار ’’ آزادیاں‘‘۔ اظہار یعنی تقریر کی آزادی، مذہب کی آزادی، خوف سے آزادی اور( اشیائے ضروریہ کی) محرومی سے آزادی۔ اقوام متحدہ جس چارٹر کے تحت وجود میں آئی تھی اس میں انسانی حقوق اور انسانی شخصیت سے لازم و ملزوم وقار کا اعادہ کرتے ہوئے تمام ارکان ممالک کو بلا تخصیص نسل، زبان، جنس اور جغرافیائی حدود بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں کے لیے پابند عہد کیا گیا تھا۔ لیکن جب نازیوں کے ذریعے ڈھائے گئے مظالم دنیا پر عیاں ہوئے تو عالمی برادری کا متفقہ فیصلہ تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں جن انسانی حقوق کا حوالہ دیا گیا ہے ان کو چارٹر میں واضح طور سے بیان نہیں کیا گیا اور یہ کہ چارٹر کے مشمولات کو خاطر خواہ طور پر نافذ کرنے کے لیے افراد کے حقوق کی تخصیص اور تعین کا اعلامیہ ضروری ہے۔ چنانچہ اس تناظر میں 10دسمبر 1948 کو اقوام متحدہ کے عالمی فورم پر ’’ انسانی حقوق کا عالمی منشور‘‘(Universal Declaration of Human Rights) کے عنوان سے ایک منشور کا اعلان جاری کیا گیا جو تیس دفعات پر مشتمل ہے۔ اس منشور میں فرد کی آزادی، معاشرے کے افراد میں مساوات اور عد ل و انصاف کے قیام کا بار بار اعادہ کیا گیا ہے اور جسے تمام مہذب دنیا’’ انسانیت کا معیار‘‘ قرار دے کر بڑے زور شور سے اس کی حمایت کرتی ہے۔ منشور میں اس بات پر بہت زور دیا گیا ہے کہ تمام انسانوں کو ان کے جائز حقوق ملنے چاہئیں اور ان حقوق کی ادائیگی میں رنگ، نسل، زبان، جنس او رمذہب کی تمیز نہیں کی جانی چاہیے۔ حقوق کے تحفظ اور حصول کی بنیادی ذمہ داری اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پر ڈالی گئی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جو مستقل وقفے وقفے سے عالمی صورت حال پر ایک رپورٹ تیار کرکے اپنی سفارشات پیش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کمیشن ہر سال ایک مجلس عاملہ کے گروپ کا قیام عمل میں لاتا ہے جس میں اس بات پر انتہائی غور وخوض کیا جاتا ہے کہ’’ انسانی حقوق‘‘ کے سلسلے میں جو کوتاہیاں اور خلاف ورزیاں سامنے آتی ہیں ان کا موثر طریقے سے سد باب ہو اور مستقبل کے لیے اس مقصد کے تحت صحیح لائحۂ عمل طے کیا جائے۔
حقوق انسانی کے عالمی منشور کی چند سطریں ملاحظہ کیجیے: ’’چونکہ ہر انسان کی ذاتی عزت اور حریت نیز انسانوں کے مساوی اور ناقابل استراد حقوق کو تسلیم کرنا دنیا میں آزادی، انصاف اور امن کی بنیاد ہے؛
چونکہ انسانی حقوق سے لاپروائی اور ان کی بے حرمتی اکثر ایسے وحشیانہ افعال کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے جن سے انسانیت کے ضمیر کو شدید صدمے پہنچے ہیں اور عام انسانوں کی بلند ترین آرزو یہ رہی ہے کہ ایسی دنیا وجود میں آئے جس میں تمام انسانوں کو اپنی بات کہنے اور اپنے عقیدے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہو اور وہ خوف و احتیاج سے محفوظ رہیں۔
چونکہ یہ بہت ضروری ہے کہ انسانی حقوق کو قانونی کی عمل داری کے ذریعے محفوظ رکھا جائے خصوصاً اگر ہم یہ نہیں چاہتے کہ انسان عاجزآکر جبر اور استبداد کے خلاف بغاوت کرنے پر مجبور ہوں؛
چونکہ یہ ضروری ہے کہ قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھایا جائے؛
چونکہ اقوام متحدہ کی رکن اقوام نے اپنے چارٹر میں بنیادی انسانی حقوق، انسانی شخصیت کی حرمت اور قدر نیز مردوں عورتوں کے مساوی حقوق کے بارے میں اپنے موقف کی دوبارہ تصدیق کر دی ہے اور وسیع تر آزادی کی فضا میں معاشرتی ترقی کو تقویت دینے اور معیار زندگی کو بلند کرنے کا ارادہ کیا ہے؛
چونکہ ممبر ملکو ںنے یہ عہد کر لیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اشتراک عمل سے ساری دنیا میں اصولاً اور عملاً انسانی حقوق اور بنیادی آزادی یوں کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گے اور کرائیں گے؛
چونکہ اس عہد کی تکمیل کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ ان حقوق اور آزادیوں کی نوعیت کو سب سمجھ سکیں، لہٰذا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یہ اعلان کرتی ہے کہ انسانی حقوق کا یہ عالمی منشور تمام اقوام کے واسطے حصول مقصد کا مشترک معیار ہوگا…‘‘
تمہید کی ان چند سطور سے منشور کے اغراض و مقاصد کا مکمل احاطہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ مذکور ہوا عالمی منشور تیس دفعات پر مشتمل ہے جو سب کی سب یکساں اہمیت کی حامل ہیں، لیکن درج ذیل چند دفعات کا ذکر اس مضمون کا تقاضا ہے۔
’’ دفعہ2 : ہر شخص ان تمام آزادیوں اور حقوق کا مستحق ہے جو اس اعلامیہ میں بیان کیے گئے ہیں اور اس حق پر نسل، رنگ، جنس ، زبان، مذہب اور سیاسی تفریق کا یا کسی قسم کے عقیدے، قوم ،معاشرے، دولت یا خاندانی حیثیت وغیرہ کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس کے علاوہ جس علاقے یا ملک سے جو شخص تعلق رکھتا ہے اس کی سیاسی کیفیت، دائرۂ اختیار یا بین الاقوامی حیثیت کی بنا پر اس سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا چاہے وہ ملک یا علاقہ آزاد ہو یا تولیتی ہو یا غیر مختار ہو یا سیاسی اقتدار کے پہلو سے کسی دوسری بندش کا پابند ہو۔
دفعہ3: ہر شخص کو اپنی جان، آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق ہے۔
دفعہ7 : قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور سب بغیر کسی تفریق کے قانون کے اندر امان پانے کے برابر حقدار ہیں۔ اس اعلان کے خلاف جو تفریق کی جائے یا ایسی تفریق کے لیے ترغیب دی جائے اس سے بچاؤ کے لیے سب برابر کے حقدار ہیں۔
دفعہ8: ہر شخص کو ان افعال کے خلاف جو اس دستور یا قانون میں دیے ہوئے بنیادی حقوق کو تلف کرتے ہوں، با اختیار قومی عدالتوںسے موثر طریقے پر چارہ جوئی کرنے کا پورا حق ہے۔
دفعہ9: کسی شخص کو محض حاکم کی مرضی پر گرفتار، نظر بند یا جلا وطن نہیں کیا جائے گا۔
دفعہ 11(1) ہر ایسے شخص کو جس پر کوئی فوجداری الزام عائد کیا جائے گا بے گناہ شمار کیے جانے کا حق ہے تاوقتیکہ اس پر کھلی عدالت میں قانون کے مطابق جرم ثابت نہ ہو جائے او راسے اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع نہ دیا جا چکا ہو۔
دفعہ12: کسی شخص کی نجی زندگی ، خانگی زندگی، گھر بار، خط و کتابت میں من مانے طریقے سے مداخلت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اس کی عزت اور نیک نامی پر حملے کیے جائیں گے۔ ہر شخص کا حق ہے کہ قانون اسے حملے یا مداخلت سے محفوظ رکھے۔
دفعہ15(1) ہر شخص کو قومیت کا حق حاصل ہے۔
(۲) کوئی شخص محض حاکم کی مرضی پر اپنی قومیت سے محروم نہیں کیا جائے گا نہ اس کو قومیت تبدیل کرنے کا حق دینے سے انکار کیا جائے گا۔‘‘
واضح ہو کہ بشمول ہندوستان دنیا کے تمام ممالک نے حقوق انسانی کے عالمی منشور کو قبول کرتے ہوئے اس سے پابند عہد رہنے کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ آئین ہند میں بنیادی حقوق کے باب میں تقریباً وہ تمام آزادیاں اور حقوق مندرج ہیں جن کا ذکر عالمی منشو رمیں کیا گیا ہے۔ لیکن ہندوتو پر مبنی ہندو راشٹر کے قیام کی خاطر ہندوتو والے جس طرح آئین و قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں وہ دنیا کی نظروں کے سامنے ہے۔اکّا دکّا بے بس، مجبور اور نہتے مسلمان کا ہجوم کے ذریعے بے دردی سے قتل کئے جانے یعنی (lynching ) کا سلسلہ تو 2014میں ہی شروع ہو گیا تھا ، اب کھلّم کھلّا مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے عوامی جلسوں میں سٹیج سے اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے پر زور تلقین کی جا رہی ہے۔میں یاد دلا دوں کہ ہٹلر کے ذریعے یہودیوں کی جس طور نسل کشی کی گئی اس کے پیشِ نظر 1948میں ایک عالمی کنونشن بعنوان ’’ انسداد و تعذیر برائے جرمِ نسل کشی ‘‘ یعنی Convention on the Prevention and Punishment for the Crime of Genocide کے تحت نہایت سخت قانون بنایا گیا جو دنیا کے تمام ممالک پر نافذ ہے اور جس کی داد رسی کے لئے بین الاقوامی عدالت موجود ہے۔دلّی اور ہری دوار وغیرہ میں ہوئے ’’دھرم سنسد‘‘جن میں مسلمانوں کی نسل کُشی کے اعلانات کئے گئے ان پر فوری عالمی رد عمل آیا جس کے نتیجے میں محض دنیا دکھاوے کے لئے کچھ سادھو سنتوں رپر مقدمے درج ہوئے اور ایک آدھ کو گرفتار بھی کیا گیا حالانکہ بعد کو انہیں عدالتوں سے ضمانت بھی فوراً مل گئی۔(ابھی پرسوں ہی ہندوستان اور امریکہ کے مابین22+ یعنی دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ و دفاع کی ویڈیو کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ نے ہندوستان میں ہو رہی حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور ہندوستانی وزرا کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا)مسلمانوں کی مسجدوں اور درگاہوں میں آتش زنی کے واقعات ہورہے ہیں ، ان کے مکانات اور کاروبار کی جگہوں پر سرکاری بل ڈوزر چلائے جارہے ہیں، حجاب اور حلال گوشت کے سوال پر فتنے بپا کئے جارہے ہیں۔اور یہ سب کچھ حکومت وقت کے ایما پر ہو رہا ہے۔عدلیہ کو مکمل طور سے خصّی کیا جا چکا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ ان میں سے چند سنگین معاملات کا ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ از خود نوٹس لے سکتے تھے (اور موجودہ حکومت نہ ہوتی تو ایسا ہی ہوتا بھی) لیکن کسی بھی معاملے خصوصاً بل ڈوزروں کے سرکاری استعمال پر عدلیہ نے سانس تک منہ سے نہیں نکالا۔بل ڈوزر والی کاروائی تو نہ صرف غیر قانونی بلکہ جرم کے ذیل میں آتی ہے۔اس کے علاوہ اور جو کچھ عنقریب ہونے والا ہے اس کا ذکر بھی لازمی ہے۔ (جاری)
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)