نئی دہلی :
ہندوستان میں ’ڈیجیٹل روپیہ‘ دو – تین سالوں میں ٹرینڈ میں آسکتا ہے۔ یہ اندازہ انفوسیس کے چیئرمین نندن نیلےکنی کا ہے۔ کرپٹوکرنسی کے بڑھتے ہوئےکریج کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں ابھی اس پر اتفاق رائے بننے میں وقت لگے گا۔ یہ ممکن ہے کہ مستقبل میں اسے سرمایہ کاری کے لئے ایک اثاثہ کی حیثیت سے اجازت دی جاسکے ، لیکن خریداری اور لین دین کی اجازت دینا مشکل ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان میں صورتحال دنیا کے دوسرے ممالک سے مختلف ہے۔
ہماری یوپی آئی ادائیگی کے لئے ایک انوکھا پلیٹ فارم ہے ، لہٰذا وہاں کرپٹوکرنسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ کسی بپی بینک یا کاروبار یا شخص سے کسی کو بھی ادائیگی کا جو انٹر آپریبل پلیٹ فارم ہندوستان نے بنایا ہے وہ دنیا میں بے مثال ہے۔
نیلےکنی نے یہ بات کلب ہاؤس پر وینچر کیپٹل فرم بلوم وینچر کے ایک پروگرام میں کہی۔ اس پروگرام میں انجل انویسٹر بالاجی سرینواسن بھی شامل تھے ، جن کی رائے دی تھی کہ ہندوستان کو کرپٹوکرنسی کاروبار پر پابندی نہیں لگانی چاہئے۔ حکومت پابندی پر غور کررہی ہے۔
نندن نے کہنا تھا کہ کرپٹو جس پلیٹ فارم -بلاک چین – پر چلتا ہےڈ اس کا استعمال ہندوستان میں کئی سیکٹروں میں ہو رہا ہے۔ لیکن ہندوستان میں کرپٹو کااستعمال کرنسی کی شکل تب تک مشکل ہے، جب تک کہ ملک کی پوری آبادی کے مفاد میں اس کے استعمال کا کوئی دلیل سامنے نہ آجائے اور اس پر اتفاق عامہ نہ بن جائے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ ہندوستان نے 1968 تک سونے میں سرمایہ کاری پر کیا کیا پابندیاں عائد کی تھیں، بلاک چین پر مبنی کرپٹو کاروبار چونکہ بین الاقوامی سطح پر ہوتا ہے ، اس لئے ہندوستان کی پالیسی اس پر کچھ ویسی ہی رہے گی جیسی سرمایہ کی نقل وحرکت پر کنٹرول ختم کرنے کی پرانی مانگ پر رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سرکار مالیاتی نظام کے استحکام کے بارے میں بہت محتاط ہے۔