نئی دہلی (ڈی ڈبلیو )وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے وزیر اور ان کی پارٹی کے کئی رہنما امریکہ کے سابق صدر باراک اوباما کی اس بات سے کافی ناراض ہیں کہ انہوں نے بھارتی مسلمانوں کی پریشان کن صورت حال کے بارے میں باتیں کیوں کی اور انسانی حقوق سے متعلق آواز کیوں اٹھائی۔
واضح رہے کہ امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے گزشتہ ہفتے وزیر اعظم مودی کے دورہ امریکہ کے دوران ایک نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی تمنا ہے کہ جب صدر جو بائیڈن مودی سے بات چیت کریں، تو وہ بھارت میں مسلم اقلیت کے حقوق کے تحفظ سے متعلق پائے جانے والے خدشات پر بھی زور دیں۔
وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے بھارتی مسلمانوں کے ساتھ سلوک سے متعلق تنازعے پر مودی کا دفاع کیا اور سابق امریکی صدر باراک اوبا پر شدید تنقید کی ہے۔
نہوں نے کہا، ”میں اس وقت حیران رہ گئی، جب وزیر اعظم مودی امریکہ میں مہم چلا رہے تھے، مہم سے میرا مطلب بھارت کے بارے میں بات کرنا ہے، اس وقت امریکہ کے ایک سابق صدر بھارتی مسلمانوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔”
نرملا سیتا رمن نے کہا، میں یہ بات ضبط کے ساتھ کہہ رہی ہوں کیونکہ اس میں ایک اور ملک بھی شامل ہے۔ ہم امریکہ کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں لیکن وہاں بھی بھارت میں مذہبی آزادی سے متعلق ہم پر تبصرے کیے جاتے ہیں۔ ایک سابق امریکی صدر، جن کے دور میں چھ مسلم اکثریتی ممالک پر 26,000 سے زیادہ بار بمباری کی گئی۔ تو لوگ ان کے ایسے الزامات پر اعتبار کیسے کریں گے؟”
ان کا مزید کہنا تھا، ”مجھے تو اس ملک کے ماحول کو خراب کرنے کی یہ ایک دانستہ کوشش لگتی ہے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ترقیاتی پالیسیوں کے خلاف جیت حاصل نہیں کی جا سکتی۔
لوگ پوچھ رہے ہیں کہ مودی تو اوباما سے اپنی دوستی کی قسمیں کھاتے تھے لیکن اب اچانک آخر ایسا کیوں ہو گیا۔