نئ دہلی (ایجنسی)حکومت ہند نے پارلیمنٹ میں مانا کہ سیٹلائٹ سے حاصل کی گئی تصاویر سے بھی رام سیتو کے وجود کے ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں۔ رام سیتو کے وجود کو لے کر برسوں سے جاری تنازعہ کے درمیان حکومت کے اس بیان کو کافی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
ایک زبانی سوال کے جواب میں مرکزی وزیر جتیندر سنگھ نے راجیہ سبھا میں کہا کہ ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان جس جگہ رام سیتو بتایا جاتا ہے اس کی سیٹلائٹ تصاویر کی بنیاد پر یہ کہنا مشکل ہے کہ وہاں کون سا پل ہے۔
سنگھ نے راجیہ سبھا کو بتایا کہ ان تصویروں میں علاقے میں کچھ جزیرے اور چونے کے پتھر کے ڈھیر نظر آ رہے ہیں، لیکن انہیں درست طریقے سے کسی پل کی باقیات نہیں کہا جا سکتا۔ یہ سوال بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ کارتکیہ شرما نے پوچھا۔ شرما جاننا چاہتے تھے کہ آیا حکومت ہندوستان کی قدیم تاریخ کا سائنسی جائزہ لینے کی کوشش کر رہی ہے یا نہیں۔
اس کے جواب میں سنگھ نے یہ بھی کہا کہ مرکزی حکومت کا خلائی محکمہ ان کوششوں میں مصروف ہے، لیکن جہاں تک رام سیتو کا تعلق ہے، ’’اس کی کھوج میں ہماری کچھ حدود ہیں کیونکہ اس کی تاریخ 18000 سال سے زیادہ پرانی ہے۔‘‘
وزیر نے یہ بھی کہا کہ سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ جو ڈھانچہ موجود ہے اس میں "کچھ تسلسل” ہے، جس سے کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے… کچھ اشارے ہیں، چاہے وہ براہ راست ہوں یا بالواسطہ، کہ وہ ڈھانچے تھے۔ "
رام سیٹو کیا ہے؟
رام سیتو دراصل ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان چونے کے پتھر کی ایک زنجیر ہے جسے آدم کا پل کہا جاتا ہے۔ یہ ایک قدرتی ساخت ہے اور ارضیاتی شواہد کی بنیاد پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہندوستان اور سری لنکا کو ملانے والی زمین کا کوئی ٹکڑا ضرور رہا ہوگا جس میں سے یہ باقیات ہیں۔
یہ ڈھانچہ تقریباً 50 کلومیٹر طویل ہے اور یہاں پانی کی گہرائی اتنی کم ہے کہ جہازوں کو یہاں سے گزرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ سیتوسمدرم پراجیکٹ، جو کئی دہائیوں سے زیر غور ہے، رام سیتو پر بحث کا بناہے
اس پروجیکٹ کا مقصد ہندوستان کے مشرقی اور مغربی ساحلوں کے درمیان ایک جہاز رانی کا راستہ بنانا ہے جو ہندوستان اور سری لنکا کے درمیان سمندر سے گزرے گا۔ وہاں کے گہرے پانی اور ایڈمز کاز وے کی موجودگی کی وجہ سے اس علاقے سے بحری جہاز نہیں گزر سکتے۔