نئی دہلی:
دہلی کے جامعہ نگر علاقے کے رہنے والے کاظم احمد شیروانی کے ساتھ مبینہ ہجومی تشدد کے معاملے میں آج ایف آئی آر نہیں درج ہو سکی۔ کل ایک بار پھر ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ دراصل انگریزی زبان میں ایف آئی آر لکھی گئی تھی، لیکن پھر اس کو ہندی میں ترجمہ کرایا گیا۔ اب اس معاملے میں کل نوئیڈا پولیس سے رابطہ کیا جائے گا۔ تو ہی اس معاملے کے سرخیوں میں آنے کے باوجود نوئیڈا پولیس کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی اور نہ ہی کاظم احمد سے رابطہ کیا گیا۔
حالانکہ پرسوں صبح 7 بجے جب یہ واقعہ پیش آیا، اس کے بعد قاضی احمد کے اہل خانہ نے ٹوئٹ کرتے ہوئے اتر پردیش پولیس کو ٹیگ کیا، آخری دن رات دو بجے مجھے پولیس کے تقریباً 8 افراد ذاکر نگر ان کے گھر پہنچ گئے۔ مبینہ طور پر ان سے سے ٹوئٹ کو ڈلیٹ کرنے اور شکایت نہ کرنے کوکہا، لیکن ان کے راضی نہ ہونے پر پولیس اہلکار لوٹ گئے۔
تفصیلات کے مطابق آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کی طرف سے ہجومی تشدد کو ہندتوا مخالف قرار دینے کا بیان سامنے آنے کے باوجود ہجومی تشدد کے واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ دہلی سے ملحق، نوئیڈا کے سیکٹر 37 میں 62 سالہ کاظم احمد کو 4 افراد نے دھوکہ سے اس وقت اپنی گاڑی میں بٹھا لیا، جب وہ علی گڑھ ایک شادی میں شرکت کے لئے جا رہے تھے۔
کاظم علی نے نیوز 18 کو بتایا کہ جب انہیں شک ہوا تو انہوں نے گاڑی سے نیچے اترنے کی کوشش کی، لیکن گاڑی کا دروازہ بند کر دیا گیا اور ان کے ساتھ مارپیٹ شروع کر دی گئی۔ تقریباً 15 منٹ تک ان پر پر ہاتھ پیر اور کہنیوں سے حملہ کیا گیا اور بری طرح زردوکوب کیا گیا۔ یہاں تک کہ ان کے نیچے کے کپڑے اتار کر ان کے مذہب کی پہچان کی گئی اور ان کی داڑھی نوچی گئی اور گندی گالیاں بھی دی گئیں۔
کاظم احمد نے نیوز 18 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کو لاتیں ماریں گئیں، پیچکس سے بھی ان کے چہرے پر حملہ کیا گیا جس کی وجہ سے سے پورے بدن کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے پر بہت ساری چوٹیں آئی ہیں۔ کاظم احمد پولیس کے پاس گئے، لیکن ان کی بات نہیں سنی گئی اور نہ ہی ایف آئی آر اور شکایت درج کی گئی۔ صرف ان کا اور ان کے والد کا نام پوچھ کر انہیں واپس کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرائیں گے۔
وہیں اس پورے معاملے پر سیاست بھی شروع ہو گئی ہے۔ دہلی مجلس اتحاد المسلمین کے صدر کلیم الحفیظ نے متاثر کاظم احمد سے ملاقات کی ہے اور انہیں ہر طرح سے اپنی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔ دہلی مجلس اتحاد المسلمین نے پرزور طریقے سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ یہ سنگین معاملہ ہے اور اس پر سخت کارروائی ہونی چاہئے۔