نئی دہلی :(ایجنسی)
دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کو جے این یو کے سابق طالب علم شرجیل امام کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا اور اس سے جواب طلب کیا۔ شرجیل کو سال 2019-20 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ میں شہریت قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے دوران اشتعال انگیز تقاریر کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی کیس میں شرجیل نے نچلی عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ اسی فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے شرجیل نے ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی ہے، جس پر آج سماعت ہوئی اور عدالت نے اس سلسلے میں دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے۔
اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس انوپ کمار میندیرتادہلی پولیس سے شرجیل کی عرصی پر جواب مانگا ہے اور معاملے کی اگلی تاریخ 24 مارچ طے کی ہے ۔ شرجیل کے وکیل تنویر احمد میر کی دلائل سننے کے بعد جسٹس مردل نے دہلی پولیس سے پوچھا چونکہ اس جرم سما سات سال سے کم ہے تو کیوں نہ اسے بڑھایا جائے۔ یہ بھی پوچھا کہ کیاسرجیل کی ضمانت کے بعد وہ گواہوں کو متاثر کرسکتا ہے یا ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کر سکتا ہے ۔
اس پر دہلی پولیس کے وکیل نے کہا کہ ملزم پر دفعہ 124 اے بھی لگائی گئی ہے، جس کے مطابق اسے عمر قید کی سزا سنائی جائے۔ ایڈیشنل سیشن جج، ککڑڈوما کورٹ کے 24 جنوری 2022 کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے، شرجیل امام نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو یہ کہہ کر غلط طریقے سے خارج کیا گیا ہے کہ خصوصی عدالت کے پاس ملزم کو باقاعدہ ضمانت دینے کا کوئی سی آر پی سی نہیں ہے۔یہاں تک کہ ان معاملوں میں بھی جہاں دفعہ 43 ڈی (5) یو اے پی اے کی اضافی ذمہ داری لاگو نہیں ہوتی ۔