نئی دہلی :(ایجنسی)
گوہاٹی ہائی کورٹ کے فارنرز ٹربیونل بنچ نے تبصرہ کیا ہے کہ ایک بار ٹریبونل نےکسی کو ہندوستانی قرار دے دیا ہے، تو اسی شخص کو دوسری بار اس کے سامنے لانے پر غیر ہندوستانی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ عدالت کا یہ تبصرہ آسام میں اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ایسے کئی معاملات سامنے آئے ہیں جہاں ایک شخص کو دو یا اس سے زیادہ مرتبہ ہندوستانی ہونے کا اعلان کرنے کے لیے اپنی قومیت ثابت کرنے کے لیے نوٹس بھیجے گئے تھے۔
قومیت سے جڑے ایک معاملے کی سماعت کے دوران، عدالت نے کہا کہ کسی شخص کی شہریت کے حوالے سے ٹریبونل کی رائے ’ریس جوڈی کاٹا‘ کے طور پر کام کرے گی- جس کامطلب ہے کہ معاملہ پہلے ہی طے ہو چکا ہے اور اسے پھر سے عدالت میں نہیں لایا جاسکتا ہے ۔
اس ہفتے کے شروع میں شہریت سے متعلق کئی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس این کٹیشور سنگھ اور جسٹس نانی تاگیا کی بنچ نے کہا کہ اگر کسی شخص کو پہلے کی کارروائی میں ہندوستانی شہری قرار دیا گیا ہے تو اس کے بعد کی کسی بھی کارروائی میں اسے غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جیسا کہ عدالتی فیصلے کا اصول ایسے معاملات میں لاگو ہوتا ہے۔
عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ یہ فیصلہ ہائی کورٹ نے 2018 کے امینہ خاتون معاملے میں لیا تھا، لیکن بنچ نے کہا کہ عبدالقدوس کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر یہ’اچھا قانون نہیں ہے‘۔
اس معاملے پر بحث کرتے ہوئے، ریاست نے اصرار کیا کہ غیر ملکی قانون 1946 کے سیکشن 3 کے تحت، غیر ملکیوں کو تلاش کرنے اور ملک بدر کرنے کا اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہے۔ مرکزی حکومت نے یہ اختیار پولیس سپرنٹنڈنٹس کو سونپ دیا، جبکہ جلاوطنی کو اپنے پاس رکھا۔ فارنرز (ٹربیونلز) آرڈر 1964 کے تحت سپرنٹنڈنٹ آف پولیس صرف فارنرز ٹربیونل کی رائے لیتا ہے اور حتمی فیصلہ خود لیتا ہے۔
اب، درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے دلیل دی ہے کہ آمنہ خاتون کے کیس کا فیصلہ اس پر عمل کرنے کے لیے اچھا قانون نہیں ہے۔