نئی دہلی :
ملک بھر میں کورونا وائرس کی دوسری لہر پھیلی ہوئی ہے جو خطرناک طریقے سے انفیکشن پھیلا رہی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے ملک میں کورونا وائرس کے یومیہ معاملے تین لاکھ سے زیادہ آرہے ہیں اور دو ہزار سے زیادہ لوگوںکی موت ہورہی ہے، حالانکہ منگل کو کورونا کے یومیہ معاملے میں ہلکی گراوٹ آئی ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹے میں 3.23لاکھ سے زیادہ معاملے درج ہوئے۔ ریلوے نے ابھی تک 450 ٹن کی آکسیجن سپلائی کی ہے۔ آسٹریلیا نے بھارت سے تمام اڑانوں کو 15 مئی تک کے لیے رد کردیا دیا ہے۔ آکسیجن کی کمی کے سبب سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ میں سماعت ہوئیں ۔ وہیں گجرات میں مزید نو شہروں میں کرفیونافذ کردیا گیا ہے۔
ملک کے دارالحکومت دہلی میں آکسیجن کے بحران سے متعلق ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی ۔ دہلی کے شانتی مکند اسپتال نے عدالت کو بتایا کہ انہیں فراہم کردہ آکسیجن کی مقدار کم کردی گئی ہے۔ اب ان کے پاس آکسیجن نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے دہلی حکومت کو آکسیجن سلنڈر کی بلیک مارکیٹ کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لینے کو کہا ہے۔
حکومت نے جواب دیا ہے کہ وہ اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ شانتی مکند اسپتال کا کہنا ہے کہ انہیں روزانہ 3 میٹرک ٹن کی ضرورت ہے ، لیکن 3.2 الاٹ کیا گیا ۔ حالانکہ صرف 2.69میٹرک ٹن ہی مل پایاہے ، ایسی صورتحال میں اسپتال میں ایک بڑابحران ہے۔ جب عدالت نے پوچھا کہ اب صورتحال کیا ہے ، تو شانتی مکند اسپتال نے کہا کہ مریض مر رہے ہیں ، حکومت کیا کر رہی ہے۔ ہم اس حکومت سے تنگ آچکے ہیں۔ آکسیجن کہاں ہے؟
دہلی ہائی کورٹ نے کیجریوال حکومت سے آکسیجن ریفلرز کے خلاف کارروائی کرنے کو کہا ہے۔ اس دوران ملتان ایئر پروڈیکٹ نامی کمپنی بھی عدالت میں پیش ہوئی۔ دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ وقت لوگوں کے گدھوں کی طرح برتاؤ کرنے کا نہیں ہے۔ دہلی حکومت نے سماعت کے دوران کہاکہ آکسیجن الاٹمنٹ کو لے کے آج جو ہم آرڈر پاس کرنے والے ہیں اس میں تمام جانکاریاں ہوںگی۔ اسپتالوں کو پتہ رہے گا کہ انہیں آکسیجن کی سپلائی کہاں سے آرہی ہے۔ دہلی سرکار کی طرف سے کہا گیا ہے کہ سلنڈر مہیا کرانا نیا ہے۔ ہم کبھی اس ویوپار میں نہیں رہے ہیں، ہم کافی محنت کررہے ہیں جس سے کہ اس کوشش میں استحکام میں آئے۔
کورونا ویکسین کی غیر مساوی قیمتیں کیوں؟: سپریم کورٹ
دوسری جانب سپریم کورٹ میں منگل کے روز سماعت ہوئی، اس دوران ویکسین کی غیر مساوی قیمتوں کا معاملہ بھی اٹھا۔ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ ویکسین کی الگ الگ قیمتیں کیوں طے کی جا رہی ہیں؟ سپریم کورٹ نے مزید پوچھا کہ ویکسین کی الگ الگ قیمتوں پر مرکزی حکومت کیا کر رہی ہے؟
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ڈرگ کنٹرولر اور پٹینٹ ایکٹ کے تحت حکومت کو اختیارات حاصل ہیں۔ نیز مرکز کی جانب سے فوجی دستوں، نیم فوجی دستوں اور ریلوے کا استعمال کس طرح کیا جا رہا ہے۔ اس کے جواب میں مرکز کی جانب سے کہا گیا کہ وسائل کا صحیح استعمال کیا جا رہا ہے۔
کورونا کی صورت حال پر ملک کے مختلف ہائی کورٹوں میں بھی سماعت کی جا رہی ہے۔ اس معاملہ پر آج سپریم کورٹ نے ایک بار پھر صاف کیا کہ مقامی حالات کو ہائی کورٹ بہتر جانتا ہے، لہٰذا وہاں چل رہی سماعت پر روک نہیں لگائی جائے گی۔
گزشتہ سماعت کے دوران سابق چیف جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ایل ناگیشورا راؤ اور ایس رویندر بھٹ نے کئی بار کہا تھا کہ ان کا ارادہ ہائی کورٹ کی سماعت کو روکنا قطعی نہیں تھا۔ ان کی کوشش صرف یہ ہے کہ قومی سطح پر ضروری ادویات اور آلات کی تیاری اور نقل و حمل کے سلسلہ میں پش آ رہی پریشانی کو دور کیا جانا ہے۔
واضح کریں کہ عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے واضح قومی منصوبے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ گزشتہ سماعت کے دوران مرکزی حکومت سے 4 نکات پر جواب طلب کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے مرکز کو 4 نکات (آکسیجن کی فراہمی، ضروری ادویات کی فراہمی، ویکسی نیشن کا طریقہ کار اور ریاست میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ؟) پر مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔