تحریر: محمد آصف خان
ہریانہ کے پانی پت میں مغل دور کی مسجد’ کابلی باغ مسجد‘ کا احاطہ 1992 سے اس وقت سے بند ہے جب بابری مسجد کو ہندوتوا گروپوں نے منہدم کر دیا تھا۔ کابلی باغ مسجد مغل حکمران بابر نے 1527 میں لودھی خاندان کے سلطان ابراہیم لودھی پر 1526 میں پانی پت کی پہلی جنگ میں فتح کی یاد میں تعمیر کروائی تھی۔ بابر نے اس مسجد کا نام اپنی بیوی مسمات کابلی بیگم کے نام پر رکھا اور یہ ہندوستان میں مغلوں کی قدیم ترین یادگاروں میں سے ایک ہے۔
میلوں کے فاصلے پر کابلی باغ مسجد کا حشر بھی اب مسمار کی گئی بابری مسجد جیسا ہی رہا ہے۔ پانی پت کی یہ مسجد یہاں رہنے والوں کے لیے یادیں رکھتی ہے۔ ان میں سے ایک 80 سالہ بدرالدین اخلاق بھی ہیں۔ ان کو اپنا بچپن یاد آتا ہے جب وہ اپنے والد کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے آتے تھے یہ مسجد کو’علاقے میں امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے بند‘ کرنے سے بہت پہلے کی بات ہے جب بابری مسجد کو منہدم کیا گیا تھا۔
’’میں ساری زندگی اسی علاقے میں رہا ہوں۔ میں اس مسجد کے اندر نماز پڑھتا اور کھیلتا پلا بڑھا۔ اسے ٹوٹتا دیکھ کر میرے لیے دل دہل جاتا ہے۔‘‘
اخلاق نیوز پورٹل سے گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ اب اپنی شام اسی مسجد کے ارد گرد گزارتے ہیں ’’ مقامی انتظامیہ نے مسجد کو یہ کہہ کر سیل کر دیا ہے کہ یہ ایک وراثتی ڈھانچہ ہے، لیکن اس منطق سے انہیں دہلی کی جامع مسجد کو بھی سیل کر دینا چاہیے۔‘‘
اخلاق کہتے ہیں، ’چونکہ یہ مسجد ہر گزرتے دن کے ساتھ بند رہتی ہے، یہ یہاں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے بدعا (لعنت) بھیجتی ہے۔‘ مسجد کا فن تعمیر سمرقند اور فرغانہ کی شاہی مساجد سے مشابہت رکھتا ہے۔ مشہور ڈھانچے کی دیواروں پر لکھے ہوئے نوشتہ جات میں بابر کا ذکر ہے اور یہ 1527 کا ہے۔
اس کی تعمیر کے تقریباً 500 سال بعد، مسجد ابتر حالت میں کھڑی ہے۔ حکام کی طرف سے مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا اور بڑھتے ہوئے شہری پھیلاؤ کی وجہ سے بے حرمتی ہورہی ہے۔ مسجد کا کمپلیکس اب گندی گلیوں، گٹروں کی نالیوں اور کچرے کے ڈھیروں سے گھرا ہوا ہے، یہ اس وسیع و عریض جنگل کے بالکل برعکس ہے جس کے ارد گرد صرف 40 سال پہلے ہوا کرتا تھا۔
مسجد سے متصل محلے میں پلے بڑھے ایک اور مقامی گھنشیام سنگھ کہتے ہیں، ’’میرے بچپن میں مسجد جنگلوں سے گھری ہوئی تھی۔‘‘پہلے میلوں دور سے مسجد کو دیکھا جا سکتا تھا۔ اب یہ اس گنجان کالونی میں غائب ہو گئی ہے،‘‘ مسجد کے مشرق کی طرف گنبد نیم منہدم پڑے ہیں۔ اگرچہ نقصان کے وقت یا وجہ کا پتہ لگانے کے لیے کوئی مستند شواہد موجود نہیں ہیں، لیکن مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ 1857 کی بغاوت کے دوران مسجد کے کچھ حصوں کی بے حرمتی کی گئی تھی یا شدید بارشوں سے نقصان پہنچا تھا۔ کچھ آثار یہاں تک بتاتے کہ ابتدائی نقصان 1947 میں تقسیم کے بعد فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہوا تھا۔ مسجد کی حفاظت اب 57 سالہ سرور سنگھ کرتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ مسجد کا احاطہ منشیات کے عادی افراد اور شرپسندوں کا مرکز بن گیا ہے۔ اس مسجد میں نماز ایک متنازعہ مسئلہ رہی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق مقامی انتظامیہ اور آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے ہمیشہ اس بات کو برقرار رکھا ہے کہ مسجد کے اندر نماز پڑھنا ممنوع ہے۔
تاہم، یہ معاملہ 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے وقت سامنے آیا، جب آر ایس ایس کے مقامی رہنما مسجد کو بھی گرانا چاہتے تھے۔ انتظامیہ کو فسادات پھوٹنے کا خدشہ تھا۔ حفاظتی اقدام کے طور پر، مسجد کے اندرونی صحن کو سیل کر دیا گیا تھا اور یہ آج تک بند ہے رابطہ کرنے پر اے ایس آئی حکام نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
(بشکریہ: مکتوب میڈیا)