نئی دہلی:(ایجنسی)
معروف طلبہ لیڈر اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علم شرجیل امام کو شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کے خلاف مظاہرہ کے دوران مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقاریر دہلی کی کڑکڑڈوما عدالت نے الزامات طے کئے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور دہلی کے جامعہ علاقے میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کے دوران مبینہ طور پراشتعال انگیز بیان سے متعلق 22ایف آئی آر کی بنیاد پر فرد جرم عائد کیا ہے۔مبینہ اشتعال انگیز تقاریر جن کے لیے امام کو گرفتار کیا گیا تھا وہ13 دسمبر2019کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اور 16جنوری 2020کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کی گئی تھیں۔ وہ 28جنوری 2020سے عدالتی حراست میں ہیں۔
پیر کو ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے شرجیل پر الزامات طے کیے ہیں۔ شرجیل امام کے خلاف موجودہ ایف آئی آر 124 اے، 153 اے، 153بی، 5050 اور یو اے پی اے کی دفعہ13کے تحت بغاوت، مذہب، نسل، مقام پیدائش کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے سمیت عوامی فسادات اور غیر قانونی سرگرمیوں (روک تھام) کے تحت غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
بیان کا ویڈیو وائرل ہونے کے بعد شرجیل امام موضوع گفتگو بنے اس کے بعد انہیں سی اے اے کے خلاف ہوئے پرتشدد احتجاج سے منسلک کئی معاملوں میں ملزم بنایاگیا، شرجیل کو جنوری 2020میں اشتعال انگیز بیان اور ملک سے غداری کے معاملے میں بہار سے گرفتار کیاگیا تھا۔ دہلی پولیس نے اس معاملے میں امام کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی، جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ اس نے مبینہ طور پر مرکزی حکومت کے خلاف نفرت کو بھڑکانے والی تقریریں کیں اور لوگوں کو اکسایا جس کی وجہ سے دسمبر 2019 میں تشدد ہوا تھا۔دہلی کی ساکیت عدالت نے شرجیل امام کی ضمانت عرضی خارج کردی تھی، عرضی خارج کرتے ہوئے عدالت نے کہاکہ تھا کہ 13دسمبر 2019کی تقریر کو سرسری طریقے سے پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صاف طور پر فرقہ وارانہ ہے اس طرح کی تقریر سے سماج کا امن وامان بگڑتا ہے، ہم وہی ہوتے ہیں جو ہماری سوچ بناتے ہیں، اس لیے آپ کیا سوچ رہے اس بات کو دھیان میں رکھیں۔ لفظ بہت اہم نہیں ہیں لیکن سوچ زندہ رہتی ہے وہ زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے اور دور تک جاتی ہے۔ واضح رہے کہ شمال مشرق دہلی فسادات کو لے کر 150 سے زیادہ معاملات درج کیے گئے ہیں اس تشدد میں تقریباً 53 لوگ ہلاک اور کئی زخمی ہوئے تھے۔ فساد سے منسلک معاملوں میں اب تک250 سے زیادہ چارج شیٹ داخل کی جاچکی ہیں، ان میں1153 لوگوں کو ملزم بنایاگیا ہے۔
بتادیں کہ الہ آباد ہائی کورٹ نے اس سے قبل یکم دسمبر 2021کو شرجیل امام کو ضمانت دی تھی۔ عدالت نے ضمانت کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ شرجیل امام نے نہ تو ملک سے بغاوت کرنے کی بات کہی ہے اور نہ ہی لوگوں کو تشدد بھڑکانے لیے اکسایا ہے ۔ عدالت نے شرجیل امام کو پچاس پچاس ہزار کی ضمانتوں پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا ۔ جسٹس سومتر دیال سنگھ کی بنچ نے معاملے کی سماعت کے بعد شرجیل امام کی طرف سے داخل ضمانت عرضی منظور کر لی تھی ۔ ذیلی عدالت میں شرجیل امام کی ضمانت عرضی خارج ہونے کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ میں ضمانت عرضی داخل کی گئی تھی ۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ شرجیل امام پر پولیس کی طرف سے جو سنگین دفعات لگائی گئی ہیں وہ قانون اور شواہد کی بنیاد پر عدالت میں ثابت نہیں ہو پائیں ۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ شرجیل امام کی تقریر میں ایسی کوئی غیر قانونی بات نہیں ثابت ہوئی جس کی بنیاد پر شرجیل امام کی ضمانت روکی جائے۔