نئی دہلی:(ایجنسی)
صدارتی انتخابات 2022 کی تاریخ کے اعلان کے ساتھ ہی، جمعرات کو سوشل میڈیا پر سیاسی حلقوں سے لے کر اس اعلیٰ آئینی عہدے کے لیے اہل امیدواروں کے لئے بحث شروع ہو گئی۔ ان بحث میں، خاص طور پر سوشل میڈیا پر، ان سیاستدانوں یا مشہور شخصیات کے ناموں کا سب سے زیادہ چرچا ہو رہا ہے جن کے امیدواروں کے طور پر کیرالہ کے گورنر عارف محمد خان سے لے کر فلمی اداکار امیتابھ بچن تک شامل ہیں۔
ٹوئٹر پر ان لوگوں کے ناموں کی بحث
ٹویٹر پر کچھ لوگوں نے صدر اتی امیدوار کے طور پر اصل طور سےاڑیشہ کی رہنے والی دو بار کی ایم ایل اے اور ایک بار وزیر مملکت کے طور پر کام کرچکی ہیں اور جھارکھنڈ کی پہلی خاتون گورنر دروپدی مرمو، چھتیس گڑھ کی گورنر انوسویایو کی اور کچھ نے رتن ٹاٹا اور کچھ نے نائب صدرجمہوریہ وینکیا نائیڈو کے نام بھی تجویز کئے گئے ہیں۔
اے اے پی کے سابق لیڈر نے دعویٰ کیا
عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے رہنما اور دہلی حکومت کے سابق وزیر سومناتھ بھارتی نے قابل اعتماد ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عارف محمد خان اس عہدے کے مضبوط دعویداروں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ کیا، ’قابل اعتماد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کیرالہ کے موجودہ گورنر عارف محمد خان ہندوستان کے صدر کے عہدے کے سب سے مضبوط دعویدار ہیں۔ یہ یقین کرنے کے قابل بھی ہے۔ سماج دشمن عناصر کی وجہ سے پوری دنیا میں جو بھارت مخالف تاثر پیدا ہو رہا ہے، نریندر مودی جی اس کا مقابلہ کرنے کی تلاش میں ہیں۔
الیکشن کمیشن نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اگلے صدر کے انتخاب کے لیے الیکشن 18 جولائی کو ہوگا اور ووٹوں کی گنتی 21 جولائی کو ہوگی۔ اس انتخاب میں ایم پی اور ایم ایل ایز پر مشتمل الیکٹورل بلاک کے 4,809 ممبران موجودہ صدر رام ناتھ کووند کے جانشین کا انتخاب کریں گے۔
بی جے پی امیدوار کی جیت یقینی
لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ساتھ ساتھ کئی ریاستی اسمبلیوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طاقت کو دیکھتے ہوئے، مرکز میں حکمراں پارٹی آئندہ انتخابات میں اپنے امیدوار کی جیت کو آسانی سے یقینی بنانے کی پوزیشن میں ہے۔
بی جے پی میں ابھی تک صدارتی امیدوار کو لے کر کوئی باضابطہ بحث شروع نہیں ہوئی ہے۔ تاہم جب اس بارے میں بی جے پی کے ایک رہنما سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس طرح کے فیصلے بی جے پی کے پارلیمانی بورڈ میں ہوتے ہیں اور پھر تمام پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے قائم کیا جاتا ہے تاکہ ان کی جیت کو یقینی بنایا جاسکے۔
انہوں نے کہا ’’سوشل میڈیا پر بھلے ہی کئی ناموں پر بحث ہو سکتی ہے، لیکن بی جے پی میں اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ گزشتہ صدارتی انتخاب میں بھی کیا ہوا تھا… مودی جی کے فیصلے اکثر چونکا دینے والے ہوتے ہیں۔‘‘
پچھلا صدارتی انتخاب 17 جولائی 2017 کو ہوا تھا
پچھلا صدارتی انتخاب 17 جولائی 2017 میں کو ہوا تھا اور ووٹوں کی گنتی 20 جولائی کو ہوئی تھی۔ کووند نے لوک سبھا کی سابق اسپیکر اور اپوزیشن کی امیدوار میرا کمار کو تقریباً 3,34,730 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ کووند کی امیدواری کے اعلان سے پہلے سیاسی حلقوں میں کئی نام زوروں پر تھے، لیکن جب اس وقت کے بی جے پی صدر امت شاہ نے پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ کے بعد ان کے نام کا اعلان کیا تو سبھی حیران رہ گئے۔
تاہم انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ٹوئٹر پر عام لوگوں نے اندازے لگانے کے ساتھ اہل امیدواروں کے نام تجویز کرنا شروع کر دیے۔ الیکشن کے اعلان کے چند گھنٹوں کے اندر ہی عارف محمد خان کا نام انڈیا میں ٹوئٹر پر ٹاپ 10 میں ٹرینڈ ہونے لگا۔
لوگوں نے کیرالہ کے گورنر کو اہل امیدوار بتایا
ٹویٹر یوزرریٹائرڈ میجر امت بنسل نے ایک ٹویٹ میں کہا، ’’ذاتی طور پر میرا ماننا ہے کہ صدر کے عہدے کے لیے سب سے زیادہ اہل امیدوار عارف محمد خان ہیں۔ میں انہی کے شہر سے آتا ہوں اور انہیں جانتا ہوں، اس لیے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ بھارت ان کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ ہندوستان ان کے ذہن میں چھایا رہتا ہے اور وہ ایک سچے محب وطن ہے جو ملک کو نئی بلندیوں پر لے جا سکتے ہیں۔‘‘
کچھ ٹوئٹر صارفین نے یہاں تک لکھا کہ خان کو صدر بنانا وزیر اعظم نریندر مودی کا ایک اور ’’ماسٹر اسٹروک‘‘ ہوگا۔
ایسے ہی ایک صارف نے لکھا کہ اس سے بی جے پی کی مسلم مخالف ہونے کی شبیہ میں بہتری آئے گی اور بی جے پی کے کچھ لیڈروں کی طرف سے پیغمبر اسلام کے بارے میں کیے گئے حالیہ ریمارکس کی وجہ سے دنیا بھر میں پیدا ہونے والے غم و غصے میں کافی حد تک کمی آئے گی۔