نئی دہلی : (آر کے بیورو)
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا ساورکر کو الگ رنگ اور ہیرو کے روپ میں دکھانے اور باور کرانے والا بیان، تاریخ بیانی نہیں بلکہ تاریخ سازی اور من گھڑت کہانی کو تاریخ بنانے کی کوشش ہے، ساورکر کے نصف درجن سے زائد معافی نامے ہیں، اتنی بار گاندھی جی، ساورکر سے کب ملے اور کب کب خط لکھ کر معافی مانگنے کے لیے کہا تھا؟
1911 کے بعد ساورکر کا تحریک آزادی سے متعلق رول و رویہ بدل گیا تھا، گاندھی جی کی جرأت اور انگریزوں کے خلاف عدم تعاون، ترک مواصلات، ستیہ گرہ، کو دیکھتے ہوئے اس دعوے میں کوئی زیادہ دم نظر نہیں آتا ہے کہ گاندھی جی نے ساورکر کو انگریزوں سے معافی مانگ لینے کے لیے کہا تھا، کیا اس زمانے میں بھارت میں گاندھی جی تھے یا ساورکر سے ملاقات کے لیے سیلولر جیل گئے تھے، جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا ہے اس کے امکان پر بھی بات کرنا قطعی بے معنی ہے۔
ساورکر کی فرقہ پرستی اور مسلم اور اسلام دشمنی، ان کی ہندوتو اور تاریخ کے سنہری ابواب و اوراق کتابوں سے پوری طرح واضح ہے ، کبھی کبھار کی دیگر باتوں کا تناظر بالکل الگ ہے ،اس کے متعلق ہم نے اپنی کتاب ساورکر فکر و تحریک میں بحث کی ہے ،وہ ہندو سماج اور سیاست کا فوجی اور ہندو کرن کرنے میں یقین رکھتے تھے۔
بھارت میں گوڈسے اور ساورکر کو مقبول و معتبر بنانے کی جو زبردست مہم چلائی جا رہی ہے، وزیر دفاع کا بیان اسی کا حصہ لگتا ہے، اس سے پہلے اس مہم میں لال کرشن اڈوانی نے بڑا کردار ادا کرنے کی کوشش تھی، انہوں نے اپنی کتاب درشٹی کون اور دیس سرو پری میں اس کا ذکر بھی کیا ہے، لیکن کیا اس سے تاریخ کو بدلا جا سکتا ہے، ہندوتو وادیوں اور فرقہ پرستوں کے لیے گاندھی جی کو ختم کرنا اور صحیح سے قبول کرنا دونوں مسئلہ ہے، اس لیے ترکیب سے کھیلا کرنے کا راستہ نکالا جا رہا ہے، یہ ایک الگ طرح کی سیاست ہے، لیکن یہ تو ثابت ہو ہو ہی رہا ہے کہ ساورکر نے برٹش حکومت سے معافی مانگ کر رہائی حاصل کی تھی اور ہندو، ہندوتو کوئی دھرم نہیں ہے، ایسی حالت میں دھرم پریورتن کا مطلب کیا رہ جاتا ہے اور اس کے متعلق قوانین کا کیا جواز ہے؟