کیف ؍ ماسکو:(ایجنسی)
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ روس نے یوکرین کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ اب تک کئی فوجی بھی مارے جا چکے ہیں۔ اب اس تباہی کے بعد روس دوبارہ مذاکرات کی میز پر آ گیا ہے۔ وہاں کے وزیر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ اگر یوکرین کے فوجی ہتھیار ڈال دیں تو پھر بات چیت ہو سکتی ہے۔
روس نے کہا-ہتھیار ڈال دیں
روس کی جانب سے یہ بڑی تجویز کل یوکرین کے خلاف بڑی فوجی کارروائی کے بعد دی گئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یوکرین اس تجویز کو جلد قبول کرنے والا نہیں ہے، لیکن صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ حل آخر کار تلاش کیا جا سکتا ہے۔ روس کی یہ حکمت عملی پہلے سے موجود تھی کہ یوکرین کو گھٹنوں کے بل لایا جائے اور پھر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جائے۔ روس کی اس پیشکش پر یوکرین کے صدر نے بھی ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ان کی طرف سے بات چیت کی تجویز پوتن کو بھی دی گئی ہے۔ انہوں نے پوتن کو مذاکرات کی میز پر مدعو کیا ہے۔
ویسے روس کے وزیر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ یوکرین کے رہائشی علاقوں پر ان کی فوج حملے نہیں کر رہی ہے۔ وہاں موجود انفراسٹرکچر کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ لیکن اب تک روس کی جانب سے کی جانے والی کارروائی کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ روس کے شہری سڑکوں پر آکر روسی صدر کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ روس میں اب تک 1700 مظاہرین کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
کیف کا محاصرہ، یوکرین کی جنگ بندی کی اپیل”’
صدر ولادیمیر زیلنسکی نے یوکرین پر روسی فوج کے حملے کے دوسرے دن جمعہ کو دارالحکومت کیف میں کئی حملوں کے بعد روس سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ بی بی سی نے یوکرائنی حکام کے حوالے سے بتایا کہ روسی افواج نے دارالحکومت پر کئی میزائل داغے اس بڑے حملے میں کم از کم ایک عمارت کو نقصان پہنچا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق حملے میں تین افراد زخمی ہوئے۔
زیلنسکی کی جانب سے ملک کو دیے گئے پیغام میں روس سے جنگ بندی کی اپیل کی گئی ہے۔ انہوں نے مغربی ممالک پر بھی زور دیا ہے کہ وہ روسی حملے کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
بی بی سی نے کیف میں صبح 4 بجے کے حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دھماکے پوزیانکی کے علاقے میں اس وقت ہوئے جب روسی افواج کیف کی طرف پیش قدمی کر رہی تھیں۔ بی بی سی کے رپورٹر نے ٹویٹ کیاکہ ’کیف میں دو چھوٹے دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، فی الحال یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ اس کا کیا مطلب ہے لیکن افواہیں ہیں کہ روسی افواج دارالحکومت میں داخل ہو گئی ہیں۔
یوکرین کی فوج کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کی افواج دارالحکومت کیف کے مضافات میں دیمر اور ایوانکیو میں روسی افواج سے مقابلہ کر رہی ہیں اور وہاں روسی بکتر بند گاڑیوں کا ایک بڑا اجتماع ہے۔ یوکرائنی ملٹری فورسز کے آفیشل فیس بک پیج پر بتایا ہے کہ’روسی افواج جو دارالحکومت کے سب سے مغربی علاقے میں داخل ہوئی ہیں ان سے مقابلہ کیا جا رہا ہے۔‘
اس سے قبل روسی افواج کو دارالحکومت میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے یوکرین کی فوج نے خود دریائے ٹیٹریو پر بنے پل کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ دارالحکومت کے مضافات میں واقع ہوائی اڈے پر روسی افواج کے ساتھ لڑائی ابھی بھی جاری ہے۔
یوکرین ناراض، نیٹو کی مدد نہیں ملی
فی الحال یوکرین میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ یوکرین کے آل آؤٹ حملے سے یوکرین کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اسنیک آئی لینڈ کے جزیرے پر روس نے یوکرین کے 13 فوجیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ ساتھ ہی یوکرین یہ بھی دعویٰ کر رہا ہے کہ ان کی فوج سے موٹریں فائر کی جا رہی ہیں اور مشین گنیں بھی استعمال کی جا رہی ہیں۔ لیکن ان بڑے دعوؤں کے درمیان یوکرین کو افسوس ہے کہ نیٹو نے بروقت ان کے ملک کی مدد نہیں کی۔ ضرورت پڑنے پر سب نے اسے اکیلا چھوڑ دیا۔ ترکی کے صدر کا یہ بھی ماننا ہے کہ یورپی یونین اور نیٹو نے یوکرین کو ضروری مدد فراہم نہیں کی۔
اسی وجہ سے روس کے بعد یوکرین نے بھی مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ یہ بات چیت یا ملاقات کب ہوگی اس بارے میں کوئی معلومات سامنے نہیں آئی ہیں تاہم کہا جا رہا ہے کہ جلد ہی کوئی بڑی پیش رفت ہو سکتی ہے۔