پھلواری شریف:(پریس ریلیز)
ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن،پھلواری شریف،پٹنہ میں آج ”قربانی کا گوشت برادران وطن کو دینا جائز ہے یا نہیں“کے موضوع پر ایک علمی مجلس منعقد ہوئی، جس کی صدارت قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل حضرت مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کی، انہوں نے اس موقع پرفرمایا کہ مالی تعاون کے سلسلہ میں اسلام نے تعاون کی بنیاد ضرورت،حاجت کو بنایا ہے،نہ کہ مذہب کو،اسلام کا یہ آفاقی تصور ہے کہ پوری مخلوق اللہ کاکنبہ ہے اوروہ اپنے ماننے والوں کو تمام مخلوقات کے ساتھ حسن سلو ک کا حکم دیتا ہے، انسان خواہ اس کا مذہب کچھ بھی ہو، وہ مسلمانوں کے حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دیتی ہے، اس لیے صدقہ وغیرہ کے سلسلہ میں بھی اسلا کا نقطہ نظر ہے کہ،جوضرورت مند ہو،اس کا تعاون کیا جائے،خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم،یہی بات قربانی کے گوشت کے سلسلہ میں بھی ہے، ہمارا پڑوسی خواہ مسلم ہویاغیرمسلم،جوگوشت کھاتاہواس کوکو قربانی کاگوشت دینا جائز ہے، ائمہ کے اقوال اورعلماء کے فتوے واضح طورپر اسی بات کی تائید کرتے ہیں،اس لیے عید الاضحی کے موقع سے اپنے برادران وطن کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ ملک کی فضاکو سازگار اورپرامن بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔اس علمی مجلس میں مفتی محمدنافع عارفی نے ایک مختصرتحقیقی مقالہ پیش کیا، جس میں انہوں نے کہا کہ قربانی کے گوشت کے تقسیم کے سلسلہ میں مستحب یہ ہے کہ اس کے تین حصے کیے جائیں،ایک حصہ اپنے اوراپنے اہل وعیال کے لیے رکھا جائے،ایک حصہ خویش واقارب کو ہدیہ کردیا جائے۔جب کہ ایک حصہ غریبوں میں تقسیم کردیا جائے،گوشت کاغرباء میں تقسیم کرنا یا پڑوسیوں کو ہدیہ دینا مستحب ہے،
قابل غوربات یہ ہے کہ پڑوسی غربامسلمان بھی ہو سکتے ہیں اورغیرمسلم بھی،تو کیا شرعاً قربانی کا گوشت غیر مسلموں کوہدیہ میں دینا جائز ہے یا نہیں؟اس سلسلہ میں بنیادی اصول اللہ پاک کا ارشاد ہے: ”اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اورانصاف کا برتاؤ کرنے سے منع نہیں کرتے،جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے لڑائی نہیں کی اورتم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا،یقینا اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں“(سورۃ الممتحنہ:8)سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 7تا9،مسلم غیر مسلم تعلقات کے بارے میں ایک اہم اصول کو واضح کرتی ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے اوران سے دوستی رکھنے کی مطلقاً ممانعت ہے؛بلکہ یہ ممانعت ان لوگوں کے ساتھ ہے جومسلمانوں سے آمادہئ جنگ ہیں اورجنہوں نے مسلمانوں کوگھر سے بے گھرکردیا ہے،ورنہ جن لوگوں کا معاملہ مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا نہیں ہے،ان کے ساتھ بہتر سلوک کرنا چاہئے اوراپنے آپ کو نقصان سے بچاتے ہوئے دوستی رکھنی چاہئے؛چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اس قدر لحاظ فرمایا کہ جب اہل مکہ قحط سے دوچار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مدد کے طورپر پانچ سو دینا بھیجے۔(سیر کبیر:1/96)مشرکین مکہ کے قائد ابوسفیان کی صاحبزادی حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے خود نکاح فرمایا،فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مغنیہ عورت کی مدد فرمائی،جو مدد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تھی؛اس لیے ہوسکتا ہے کہ یہی حسن سلوک آئندہ ان کے مسلمانوں سے قریب ہونے اوردوست بن جانے کا ذریعہ ثابت ہو؛چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ بہت سے اہل مکہ،جو اس وقت مسلمانوں کے بدترین دشمن تھے، وہ بعد میں اسلام کے جاں نثار سپاہی بن کر کھڑے ہوئے۔
قربانی کا گوشت غیر مسلموں کودینے کے سلسلہ میں حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ کی یہ چشم کشا روایت امام ترمذی نے نقل کی ہے، حضرت عبد اللہ ابن عمر کے گھرمیں بکری ذبح کی گئی،آپ گھر تشریف لائے تو پوچھا تو کیا تم لوگوں نے ہمارے یہودی پڑوسی کو ہدیہ دیا؟پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حضرت جبرئیل پڑوسیوں کے حقوق کے سلسلہ میں مجھے باربار وصیت کرتے رہے،یہاں تک کہ مجھے خیال گزرا کہ پڑوسی کو وراثت میں حق دے دیا جائے گا۔(ترمذی،حدیث نمبر1943)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً پڑوسی فرمایا،پڑوسی مسلم وغیر مسلم ہر کوئی ہوسکتا ہے، اس لیے حضرت عبد اللہ ابن عمر نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے اپنے یہودی پڑوسی کو گوشت ہدیہ کرنے کا حکم فرمایا۔
علامہ ابن باز سابق مفتی اعظم سعودی عرب اوردارالعلوم دیوبندکا بھی فتوی ہے کہ غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دیا جاسکتا ہے۔ (دیکھئے:فتاویٰ ابن باز:18/48،فتاویٰ دارالعلوم،فتاویٰ نمبر:18714)
اس مجلس میں مفتی رضاء اللہ قاسمی،مولاناابونصرہاشم ندوی،مفتی جمال الدین قاسمی، مولانانعمت اللہ ندوی، مولانا عبد الرشید قاسمی،مولانانسیم احمد وغیرہ نے شرکت کی۔