ائود پور (اعظم گڑھ )بحیثیت محقق شبلی کی حیثیت اتنی روشن اور بلند ہے کہ اسے علمی دنیا فراموش نہ
کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ ہم اس وقت جس علاقے میں اس جلسے میں شریک ہیں وہ ریاست کے مشرقی حصے کا نہایت مردم خیز خطہ اعظم گڑھ ہے۔ یہاں مذکورہ بالا تمام میدانوں کے شہ سوارکثیر تعداد میں پیدا ہوئے ہیں اور الحمد سے آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا اس وقت مجھے صرف محققین اور وہ بھی اردو زبان وادب کے محققین کا ذکر کرناہے ۔سراج اجملی نے اس موقع پر نذیر احمد، تنویر احمد علوی ، رشید حسن خاں، شمس الرحمن فاروقی، پروفیسر ظفر احمد صدیقی، پروفیسر محمود الٰہی، ڈاکٹر شمس بدایونی، ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی وغیرہ کی نمایاں تحقیقی خدمات کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ اردو کی تحقیقی دنیا ان کے کارناموں سے ہی روشن ہے۔مہمان خصوصی اور معروف طبی محقق اور مرکزی کونسل برائے تحققیات طب یونانی حکیم وسیم احمداعظمی نے کہا کہ لفظ ’ تحقیق ‘ کثیر الابعاد حیثیت رکھتاہے۔انھوں نے کہا کہ جن لوگوں نے اردو تحقیق کی روایت کو استحکام بخشا ان میں شبلی نام سب سے اُوپر ہے
۔شبلی نے تحقیق کے حدود کار میں زبان و ادب کے ساتھ بہت سے دیگر مروج علوم و فنون کو بھی شامل کیا۔حکیم وسیم احمد اعظمی نے کہا کہ بعض اہل علم حافظ محمود شیرانی کو تحقیق کا باوا آدم بتاتے ہیں،جو علم اور تلاش و جستجو کی کمی پر منتج ہے۔ حافظ محمود شیرانی ایسے محقق ہیں، جو بعض اولیات کو اپنے دیار میں لے جاتے ہیں اور جو حوالہ دیتے ہیں، اس میں گفتگو کی گنجایش اور تحقیق میں کمی کا پتہ چلتاہے۔ مولانا امتیاز علی عرشی متنی تنقید کا بڑا حوالہ ہیں، لیکن وہ مولانا عبد السلام ندوی کی غالب تحقیق کو پی جاتے ہیں۔البتہ قاضی عبد الودو