فرانس میں چار پانچ دنوں سے فسادات ہو رہے ہیں۔ فسادات پر قابو پانے کے لیے تقریباً 45 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ 1000 کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ فرانس میں منگل کو پیرس کے قریب ایک 17 سالہ نوجوان کو پولیس کی گولی مار دیے جانے کے بعد مظاہرے پھوٹ پڑے جو فسادات میں بدل گئے۔ بعض شہروں میں مظاہروں پر پابندی ہے۔ فرانس کے سفر کے حوالے سے بین الاقوامی مسافروں کو وارننگ جاری کر دی گئی ہے۔ رائٹرز اور سی این این کے مطابق مظاہروں کے دوران گاڑیوں کو آگ لگانے، عمارتوں کو لوٹنے کے مناظر دیکھے جا رہے ہیں۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان کئی مقامات پر جھڑپیں ہوئیں۔ صورتحال کے پیش نظر فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اپنے وزراء کے ساتھ ہنگامی میٹنگ کی- پولیس اور مظاہرین کے درمیان
جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہے ۔ پیرس میں پولیس کی بھاری نفری کے باوجود دکانوں میں توڑ پھوڑ اور کاروں کو آگ لگانے جیسے واقعات ہورہے ہیں-
پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ منگل کے روز اس وقت شروع ہوا، جب پولیس نے الجزائر اور مراکش سے تعلق رکھنے والے ایک 17 سالہ لڑکے ناہیل ایم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
فرانسیسی وزیر داخلہ جیرالڈ درمانین کے دفتر کا کہنا ہے کہ جمعے کی صبح تقریباً تین بجے تک ملک بھر میں کم از کم 421 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ لے فیگارو اخبار کے مطابق ان میں سے نصف سے زیادہ گرفتاریاں پیرس میں ہوئی ہیں۔
اخبار کے مطابق گرفتار شدگان میں سے بیشتر کی عمریں 14 سے 18 سال کے درمیان ہیں۔ایک سینیئر پولیس افسر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’پولیس کے ساتھ براہ راست کوئی بہت زیادہ پرتشدد تصادم نہیں ہے، تاہم بہت سی دکانوں میں توڑ پھوڑ، لوٹ مار یا یہاں تک کہ املاک کو جلانے کے واقعات ہوئے ہیں۔‘‘
ہلاک ہونے والے نوجوان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں ان کے بیٹے کو نسلی بنیادوں پر ہلاک کیا گیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں پولیس فورس کے خلاف کوئی رنجش نہیں ہے۔
والدہ کا نام مونیہ بتایا گیا ہے، جو میڈیکل سیکٹر میں کام کرتی ہیں۔ فائرنگ کے واقعے کے بعد انہوں نے اپنے پہلے بیان میں کہا، ’’میں پولیس کو مورد الزام نہیں ٹھہراتی، میں اس ایک شخص کو مورد الزام ٹھہراتی ہوں، جس نے میرے بیٹے کی جان لی ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’میرے کئی دوست ہیں، جو محکمہ پولیس میں ہیں۔ وہ مکمل طور پر میری حمایت کر رہے ہیں، جو کچھ بھی ہوا، وہ اس سے متفق نہیں ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’جس پولیس افسر نے میرے بیٹے کو مارا، اس کے پاس بندوق چلانے کے علاوہ اور بھی کئی آپشنز تھے۔‘‘