تحریر: شکیل رشید
(ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
مسلمان خود کو ہندو کیوں کہیں ؟
میرا یہ سوال آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت سے ہے ، جنہوں نے 6،ستمبر کے روز ممبئی کے ایک عالیشان ہوٹل میں چند مسلمانوں سے ، جنہیں مسلم سماج کا ’’کریم ‘‘ کہا گیا ہے ، ایک ملاقات کر کے ، ان سے یہ استدعا کی تھی کہ ’’ سمجھ دار مسلمانوں کو ہر حال میں انتہا پسندی کی مذمت کرنی چاہیے ۔ ‘‘ بھاگوت نے اسی موقع پر ،اپنی بار بار کی دوہرائی ہوئی، اس بات کو پھر سے دوہرایا تھا کہ اس ملک میں رہنے والا ہر شخص ،چاہے اس کی جو بھی زبان ہو یا جو بھی مذہب ہو ، ہندو ہے ۔اور ان کے سامنے بیٹھی ہوئی مسلم سماج کی ’’کریم ‘‘ کی ، جس میں داعیٔ اسلام مولانا کلیم صدیقی بھی شامل تھے ، یہ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ ہم ہندو نہیں ہم تو مسلمان ہیں ۔
ایسا قطعی نہیں ہے کہ میں ایسی کسی ملاقات کا مخالف ہوں ،یہ یاد دلاتا چلوں کہ جب جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی اور موہن بھاگوت میں ملاقات ہوئی تھی ،تب اس کالم میں اس کا خیر مقدم کیا گیا تھا ، یہ لکھا گیا تھا :’’ جمود ٹوٹا ہے ! اور ایک ایسے وقت میں جمود ٹوٹا ہے جب اس کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا ۔ بھلا ایک ایسے دور میں جب اس ملک پر ہندوتوادیوں نے ایک طرح سے تسلط پالیا ہے اور ملک بڑی تیزی کے ساتھ ’ ہندوراشٹر ‘ کے قیام کی سمت بڑھ رہا ہے کوئی کیسے یہ سوچ سکتا تھا کہ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس) کے سر سنگھ چالک موہن بھاگوت اور مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سیدّارشد مدنی میں ملاقات ہوگی اور دونوں ہی اس بات پر متفق بھی ہوں گے کہ ’ ہندومسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بغیر ہندوستان بڑی طاقت نہیں بن سکتا ! ‘بات جمعہ30؍ ، اگست 2019ء کی ہے ، جب مولانا سید ارشد مدنی نے دہلی میں آر ایس ایس کے دفتر واقع کیشوگنج جاکر ، موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق ملاقات کی منصوبہ بندی عرصے سے کی جارہی تھی اور بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام لال دونوں کے درمیان ملاقات کے لئے عرصے سے کوشاں تھے۔ اس وقت میں نے مزید لکھا تھا : ’’ آر ایس ایس کے دفتر میں ملاقات کے دوران جہاں دونوں رہنماؤں نے ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا وہیں ’ ماب لنچنگ ‘ اور ’ این آرسی ‘ اور دیگر امور پر بھی بات چیت کی ۔ اس طرح وہ امور جو متنازع تھے ان پر مذاکرات کا ایک دروازہ کھل گیا ہے اور مذاکرات کسی نتیجے تک پہنچنے کی کلید ہوتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ مولانا ارشد مدنی اور موہن بھاگوت کی اس ملاقات پر بعض حلقوں کی طرف سے انگلیاں اٹھائی جائیں، بالخصوص مسلم حلقوں کی طرف سے کہ وہ انگلیاں اٹھانے میں پیش پیش رہتے ہیں یا اگر یہ کہا جائے کہ ان کے پاس انگلیاں اٹھانے ، لوگوں کی غلطیاں پکڑنے اور لوگوں کی کوتاہیوں کو اجاگر کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا تو زیادہ درست ہوگا ۔‘‘ مثلاً ایک عالم دین ہیں مولانا ساجد رشیدی ، ٹھیک ٹھاک آدمی ہیں ، ٹی وی مباحثوں میں خوب سرگرم رہتے ہیں ، مولانا ارشد مدنی اور مون بھاگوت کی ملاقات پر ان کا ردّعمل یوں ہے: ’’یہ خودسپردگی ہے جس کے مستقبل میں نتائج اچھے نہیں ہوگے ۔ ‘‘ انہیں یہ پریشانی ہے کہ اس ملاقات پر موہن بھاگوت کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے ۔ ساجد رشیدی کا کہنا ہے : ’’ آج جو کچھ ہورہا ہے مسلم نوجوانوں کے ساتھ وہ آر ایس ایس کرارہی ہے اور ہم ان سے یہ امید رکھیں کہ وہ ہماری بات مان کر امن کے لئے کام کریں گے اور مسلمان کو اس کا آئینی حق دینے کی وکالت کریں گے ، یہ خام خیالی ہے جس کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر ہو اس سے خیر کی توقع؟ ۔‘‘
آج جب مڑ کر پیچھے دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ میں نے شاید لکھنے میں غلطی کی تھی ۔ شاید مولانا ارشد مدنی، موہن بھاگوت کو سمجھنے میں غلط تھے ۔ اور شاید مولانا ساجد رشیدی ، جو ٹی وی ڈیبیٹ میں خوب نظر آتے تھے ، اب امامت کر رہے ہیں ،اپنی بات میں درست تھے ۔اس وقت میرا اپنا یہ ماننا تھا : ’’ آج کے دنوں میں جبکہ ملک کے حالات انتہائی خراب ہیں اس طرح کی ’ بات چیت ‘ یا ’ مذاکرات ‘ کا عمل انتہائی ضروری بھی ہے ۔ اور اگر اس ملاقات کے تعلق سے مولانا ارشد مدنی کے بیان کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ملاقات ’ خودسپردگی ‘ ہے اور نہ ہی اس ملاقات کے ’’ مستقبل میں نتائج خراب ہوں گے ‘‘ ۔ اس وقت کے، مولانا ارشد مدنی کے بیان پر ایک نظر ڈال لیں ۔ ’’ جب آر ایس ایس نے ملک کے موجودہ حالات کی وجہ سے نرمی کا مظاہر ہ کیا اور یہ پیغام ہم تک پہنچایا کہ ملک کی بقا ہندو مسلم ایکتا میں مضمر ہے تو مجھے خوشی ہوئی ، جمعیۃ علماء روز اول سے آج تک جو تحریک لے کر چلی تھی اس میں کامیابی حاصل ہوئی، کیونکہ آر ایس ایس نے اپنے پیغام میں یہ کہا کہ ہندوستان کی بقا ہندو مسلم ایکتا میں ہے ، آر ایس ایس نے کہا کہ ہندو مسلم ایکتا اسی وقت ممکن ہے جب جمعیۃ علماء ہند آگے آئے لہٰذا اس دعوت پر ہم نے غور کیا ، اپنے لوگوں میں مشورہ کیا ، اس کے بعد اپنی روایت کے مطابق ہم انہیں اپنے یہاں مدعو کرتے ، ہم خود آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کرنے ان کے دفتر گئے ۔‘‘
ظاہر ہے کہ اگر کوئی ہندو مسلم ایکتا کے لیے بلائے گا تو لبیک کہنا ہی پڑے گا ۔ مگر اب جا کر پتہ چلا ہے کہ یہ ساری ملاقاتیں اور یہ ’ ہندو مسلم ایکتا ‘ کا راگ مسلمانوں کو یہ قائل کرانے کے لیے تھا ، اور ہے ، کہ وہ خود کو ہندو کہلانا شروع کر دیں ، اور اس ملک کا بھلے ہی کسی اور مذہب کا فرد انتہا پسندی اور دہشت گردی کی مذمت کرے نہ کرے مسلمان ، بالخصوص ’ سمجھدار مسلمان ‘ مذمت کریں ہی ۔ اب یہ ’ سمجھدار مسلمان ‘ کون ہو سکتے ہیں ، اس سوال کا جواب سامنے ہے ، علماء کرام ، دانشورانِ عظام اور صنعت کار و مسلم سماج کے وہ افراد جو ’’ کریم ‘‘ سمجھے جاتے ہیں ۔ بھلے وہ ’’ کریم ‘‘ نہ ہوں ۔بھاگوت نے پہلے ہی ’’سمجھدار مسلمان ‘‘ ،ان دو لفظوں کو استعمال کر کے عام مسلمانوں کے لیے اپنے دروازے بند کر دیے ہیں ۔ ان سے یہ بات دریافت کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)