نئی دہلی :(ایجنسی)
دہلی کے وگیان بھون میں وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹس کی مشترکہ تقریب میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمن نے کئی اہم باتیں رکھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’عدالت کے فیصلے حکومتوں کے ذریعہ برسوں نافذ نہیں کیے جاتے ہیں۔ عدالتی اعلانات کے باوجود قصداً غیر فعالیت ہے، جو ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔ حالانکہ پالیسی بنانا ہمارے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے، اگر کوئی شہری اپنی شکایت لے کر ہمارے پاس آتا ہے تو عدالت منع نہیں کر سکتی۔‘‘
ملک کے چیف جسٹس این وی رمن نے مقامی زبانوں میں انگریزی کے علاوہ ہائی کورٹس میں سماعت کی وکالت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ میں مقامی زبانوں میں سماعت ہونی چاہیے تاکہ انصاف عام لوگوں تک پہنچ سکے۔ سی جے آئی نے کہا کہ اب اس سلسلے میں آگے بڑھنے کا وقت آگیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی سی جے آئی کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سماجی انصاف کے لیے صرف انصاف کے ترازو تک جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ زبان بھی رکاوٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں کارروائی انگریزی میں ہوتی ہے۔ اب عدالتوں میں مقامی زبان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس سے عام شہری کا انصاف پر اعتماد بڑھے گا۔
سی جے آئی نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ حکومتیں ملک میںسب سے بڑی مقدمے باز ہیں اور 50 فیصد سے زیادہ مقدمات میں فریق ہیں۔ زیر التوا مقدمات کا معاملہ اٹھاتے ہوئے، سی جے آئی نے کہا کہ حکومت سب سے بڑی مقدمے باز ہے۔ بعض اوقات حکومت جان بوجھ کر معاملات کو روک دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی بنانا ہمارا کام نہیں لیکن اگر کوئی شہری یہ مسائل لے کر آتا ہے تو ہمیں بتانا ہوگا۔
چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ ’’ہمیں لکشمن ریکھا کا دھیان رکھنا چاہیے۔ اگر یہ قانون کے مطابق ہو تو عدلیہ کبھی بھی حکومت کے راستے میں نہیں آئے گی۔ اگر میونسپلٹیز، گرام پنچایتیں ذمہ داریوں کو نبھاتی ہیں، اگر پولیس ٹھیک سے جانچ کرتی ہے اور ناجائز حراست میں مظالم ختم ہوتے ہیں، تو لوگوں کو عدالتوں کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’متعلقہ لوگوں کی ضرورتوں اور امیدوں کو شامل کرتے ہوئے گہرائی کے ساتھ بحث اور مذاکرہ کے بعد قانون بنایا جانا چاہیے۔ اکثر ایگزیکٹیوز کی غیر کارکردگی اور مقننہ کے غیر فعالیت کی وجہ سے مقدمے بازی ہوتی ہے جو قابل گریز ہے۔‘‘
این وی رمن کا کہنا ہے کہ ’’مفاد عامہ عرضی (پی آئی ایل) کے پیچھے اچھے ارادوں کا غلط استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ اسے منصوبوں کو روکنے اور عوامی اتھارٹی کو دہشت زدہ کرنے کے لیے ’نجی مفاد عرضی‘ میں بدل دیا گیا ہے۔ یہ سیاسی اور کارپوریٹ حریفوں کے ساتھ اسکور طے کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔‘‘
مقامی زبان میں ہو عدالتی کارروائی، تب عدالتی نظام سے جڑا ہوا محسوس کریں گے لوگ: مودی
وزیر اعظم نریندر مودی نے ہفتہ کو دارالحکومت دہلی کے وگیان بھون میں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کی مشترکہ کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا۔ اس کانفرنس میں مرکزی وزیر قانون و انصاف کرن رجیجو اور چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمن بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ریاست کے وزرائے اعلیٰ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کی یہ مشترکہ کانفرنس ہمارے آئینی حسن کی زندہ عکاسی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اس موقع پر مجھے بھی آپ سب کے ساتھ کچھ لمحات گزارنے کا موقع ملا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں جہاں ایک طرف عدلیہ کا کردار آئین کے محافظ کا ہے تو وہیں مقننہ شہریوں کی امنگوں کی ترجمانی کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئین کے ان دو دھاراوں کا یہ سنگم، یہ توازن ملک میں ایک موثر اور ٹائم باونڈ عدالتی نظام کا روڈ میپ تیار کرے گا۔ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ آزادی کے ان 75 سالوں نے عدلیہ اور ایگزیکٹو دونوں کے کردار اور ذمہ داریوں کو مسلسل واضح کیا ہے۔ جہاں جب بھی ضرورت پڑی ، ملک کو سمت دینے کے لیے دونوں اداروں کے درمیان کا یہ رشتہ لگاتار فروغ پایا ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ جب ملک 2047 میں اپنی آزادی کے 100 سال مکمل کر لے گا ، تب ہم ملک میں انصاف کا کیسا نظام دیکھنا چاہیں گے؟ ہم اپنے عدالتی نظام کو اتنا موثر کیسے بنائیں گے کہ وہ 2047 کے ہندوستان کی خواہشات کو پورا کر سکے، ان پر کھرا اتر سکے، اس سوال کا جواب تلاش کرنا آج ہماری ترجیح ہونی چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت ہند بھی عدالتی نظام میں ٹیکنالوجی کی صلاحیت کو ڈیجیٹل انڈیا مشن کا ایک لازمی حصہ سمجھتی ہے۔ مثال کے طور پر ای کورٹس پروجیکٹ کو آج مشن موڈ میں لاگو کیا جا رہا ہے۔ ہم عدالتی نظام میں بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ہم عدالتی نظام کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر اور اپ گریڈ کرنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ہمیں عدالت میں مقامی زبانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ملک کے عام شہریوں کا نظام انصاف پر اعتماد بڑھے گا اور وہ جڑے ہوئے محسوس کریں گے۔ آج بھی ہمارے ملک میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی تمام کارروائیاں انگریزی میں ہوتی ہیں۔ ایک بڑی آبادی کو عدالتی عمل سے لے کر فیصلوں تک کو سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے، ہمیں نظام کو عام لوگوں کے لیے آسان بنانے کی ضرورت ہے۔