لکھنؤ:(ایجنسی)
اب اتر پردیش کے مدارس میں دیگر دُعاؤں کے ساتھ راشٹریہ گان ( جن گن من) پڑھنا بھی ہوگا لازمی ۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مدارس میں اساتذہ کی تقرری بھی اب ٹی ای ٹی اورمیٹ کی بنیاد پر ہی کی جائے گی۔ مدرسہ بورڈ کی حالیہ میٹنگ میں جن اہم تجاویز پر غور وخوص کیا گیا ہے ان میںاب TET اور MTET کی بنیاد پر مدارس میں اساتذہ کی تقرری۔ بایومیٹرک سسٹم کے ذریعے اساتذہ کی حاضری۔ دیگر دُعاؤں کے ساتھ ساتھ راشٹریہ گان ( جن گن من ) پڑھنے کی لازمیت ۔طلبہ کی تعداد کم ہونے کے نتیجے میں اساتذہ کی منتقلی، موجودہ سیشن میں 14مئی سے 27 مئی تک سبھی امتحانات مکمل کرانا، طلباء و طالبات کے آن لائن رجسٹریشن کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جانا جیسے اہم نکات شامل رہے۔ ساتھ ہی وقتاً فوقتاً سروے کراکر یہ بھی دیکھا جائے گا کہ مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کے بچے مدرسے میں ہی پڑھتے ہیں یا دیگر اسکولوں میں۔حکومت سے امداد حاصل کرنے والے مدارس کا بنیادی دستور و نظام جس انداز اور جس تیز رفتاری سے تبدیل کیا جارہا ہے، اس نے مدارس اسلامیہ کے بنیادی مقاصد پر ہی سوالیہ نشان لگا دئے ہیں۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مذہبی روایتوں اور تعلیمی اقدار کے ساتھ ساتھ زبان و لسان کے وجود پر بھی خطرے منڈرانے لگے ہیں ، اقلیتی طبقے کے مدرسین و دانشور مانتے ہیں کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حکومت نے مدارس اسلامیہ پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے ، ان کے تشخص اور بنیادی مقاصد کو فوت کرنے کے باب میں عملی اقدامات کرنے شروع کردئے ہیں جبکہ اتر پردیش مدرسہ بورڈ کے چیئر مین ڈاکٹر افتخار احمد کے مطابق یہ تبدیلیاں مدارس کے نظام کو بہتر بنانے اور بدعنوانیوں کو ختم کرنے کے لئے کی جارہی ہیں یوں تو بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی جدید تعلیم اور مین اسٹریم سے جوڑنے کے نام پر اس انداز کی کوششیں شروع کردی گئی تھیں لیکن اب تو تمام فیصلے بغیر خوف وتردد لئے جارہے ہیں۔
اور لوگ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔مولانا قاری یوسف عزیزی کہتے ہیں کہ ایک منصوبہ بند سازش اور مذموم حکمت عملی اپنا کر ارباب اقتدار نے اسلامی نظام تعلیم پر ضرب کاری کی ہے اس کے نتائج آنے والے پچاس برسوں میں نہایت افسوسناک ہوں گے۔۔معروف مدرسہ اور کئی نجی مدارس چلانے والی طاہرہ رضوی کہتی ہیں کہ حکومت کی پالیسیوں نے مدارس کے بنیادی مقاصد کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ل لگا دئے ہیں اگر حالات اسی انداز سے تبدیل ہوتے رہے تو مدارس اسلامیہ اپنے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے اور زبان واقدار نیز مذہبی شعار کو بچانے کے لئے جد وجہد بھی نہیں کر پائیں گے۔
سائنس ، جغرافیہ ، تاریخ اورحساب سمیت سات مضامین کو لازمی قرار دینا اور ان کاڈریعہءِ تعلیم اردو نہ ہو نا کیا ثابت کرتا ہے ؟ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان لازمی مضامین کو پڑھانے والے اساتذہ کے لیے اردو کی واقفیت کا لازمی نہ ہونا اردو زبان و تہذیب کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کے مترادف ہے ، حکومت اتر پردیش کے اس عمل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی مقاصد کی تکمیل تو دور بلکہ اردو کی لازمیت ختم کئے جانے سے اہل اردو بالخصوص اردو میڈیم میں تعلیم حاصل کرکے مدارس میں تدریس کا پیشہ اختیار کرنے والے لوگوں کے لئے محدود وسائل بھی تقریباً ختم ہی ہوجائیں گے ۔۔معروف دانشور و سماجی رہنما بلال نورانی کے مطابق امداد حاصل کرنے کے نام پر ایک بڑا طبقہ اس سیاسی سازش کا شکار ہوا ہے جس کے خواب اسلام اور امن مخالف طاقتیں گزشتہ نصف صدی سے دیکھ رہی تھیں۔
عصری تعلیم سے بہرہ ور کرانے کے نام پر سرکاری سطح پرجو حکمت عملی وضع کی گئی تھی اب عملی شکل میں سامنے آگئی ہے۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مدرسہ بورڈ اور اقلیتی فلاح و بہبود سے منسلک تمام اداروں میں ایسے ہی لوگ بٹھا دئے گئے ہیں جو حکومت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا نے میں معاون و مددگار ثابت ہوسکیں ۔اور دوسری طرف امت مسلمہ کی مصلحت کوشی ، منافقت اور بے حسی نے اس منظرناے کو مزید افسوس ناک اور پیچیدہ بنا دیا ہے ۔