کابل (العربیہ نیٹ) طالبان کے سپریم لیڈر ھبۃ اللہ اخونزادہ نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ ان کی حکومت نے افغانستان میں خواتین کی زندگیوں میں بہتری لانے کے ضروری اقدامات کیے ہیں۔ ان کا یہ بیان ان حالات میں سامنے آیا ہے جہاں خواتین پر عوامی زندگی اور کام کرنے پر پابندی ہے اور لڑکیوں کی تعلیم کو سختی سے روک دیا گیا ہے۔
ھبۃ اللہ اخونزادہ کی جانب سے یہ بیان عید الاضحی کی تعطیل سے قبل جاری کیا گیا۔ ھبۃ اللہ ایک اسلامی سکالر ہیں اور شاذ و نادر ہی عوام میں نظر آتے ہیں۔ وہ افغانستان کے جنوب میں طالبان کا گڑھ سمجھے جانے والے صوبہ قندھار میں مقیم ہیں اور بہت کم قندھار سے باہر جاتے ہیں۔ ان کے اطراف ایسے علماء کرام یا اسلامی سکالرز کی کثرت ہے جو خواتین کے لیے مخلوط تعلیم اور کام کرنے کی مخالفت کرتے ہیں۔
اپنے عید کے پیغام میں اخونزادہ نے کہا کہ امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں خواتین کو جبری شادیوں سمیت بہت سے روایتی جبر سے بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں اور ان کے شرعی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا اسلامی شریعت کے مطابق خواتین کو آرام دہ اور خوشحال زندگی فراہم کرنے کے لیے معاشرے کے نصف حصے کی حیثیت سے ان کی بہتری کے لیے ضروری اقدامات کیے گئے ہیں۔
واضح ہو کہ افغانستان میں طالبان نے خواتین کو عوامی مقامات جیسے پارکس اور جمز میں جانے سے روک دیا ہے اور میڈیا کی آزادیوں کو پابند کیا گیا ہے۔ طالبان کے ان اقدامات نے عالمی سطح پر ایک ہنگامہ برپا کر دیا ہے۔ طالبان کی سخت گیر پالیسیوں نے افغانستان کی تنہائی کو ایسے وقت میں بڑھا دیا ہے جب اس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور وہاں انسانی بحران مزید خراب ہو رہا ہے۔
ھبۃ اللہ نے دوسرے ملکوں سے افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنے کے اپنے مطالبے کا بھی اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت دنیا کے ساتھ خاص طور پر اسلامی ملکوں کے ساتھ اچھے سیاسی اور اقتصادی تعلقات کی خواہاں ہے۔ اور اس سلسلے میں اس نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔
ھبۃ اللہ اخونزادہ کے پیغام میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے رویے کی بھی شدید مذمت کی گئی اور سوڈان کے عوام اور حکومت سے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اتحاد اور بھائی چارے کے لیے مل کر کام کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔