تحریر:مولانا عبد الحمید نعمانی
کچھ دنوں پہلے2018ءمیں معروف صحافی سعید نقوی کی کتاب "وطن میں غیر ،ہندستانی مسلمان”منظر عام پر آئی تھی، یہ ان کی اصل انگریزی کتاب، Being The Other, The Muslim in Indiaکا اردو ترجمہ ہے ۔ ملک میں جس طرح کا ماحول ،مسلمانوں کے تعلق سے بنا دیا گیا ہے اور گزرتے دنوں کے ساتھ اس میں رنگ اور بھنگ ڈالنے کا کام چل رہا ہے۔ اس میں نقوی صاحب کی کتاب کا نام صورت حال پر ایک ایسا زوردار تبصرہ ہے ، جس سے بنتے بگڑتے سماج کی مبنی بر حقیقت تصویر سامنے آجاتی ہے ، ایسی تصویر جس پر شہدے ہنس رہے ہیں تو شریف تشویش میں مبتلا ہو کر رو رہے ہیں ،کتاب کی اشاعت کے بعد 2022ءمیں حالات میں مزید کئی طرح کی فساد انگیز اورشرمناک تبدیلیاں ہوئی ہیں، جن میں فرقوں کے درمیان اجنبیت میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ہندوتو کی نمائندہ تنظیم سنگھ کے اعلی سربراہان بھی بھارت کی جارحانہ ومنفی روایت اور مبینہ سنسکرتی کے تحفظ کے نام پر جاری سرگرمیوں سے خود کو الگ کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کر رہے ہیں ، ان کے لیے جس طرح کا عالمی منظر نامہ سامنے آرہا ہے اس میں شدت پسند ی اور فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے ساتھ خود کو کھڑا رکھنا آسان بھی نہیں رہ گیا ہے ، تاہم ایسی حالت میں یہ سوال بھی شدت کے ساتھ سامنے آرہا ہے کہ تعصب پر مبنی فرقہ وارانہ سرگرمیوں کے اسباب و محرکات کیاہیں ؟ان میں شامل عناصر کے طرز فکر و عمل سے جس طرح مسلم سماج اور اس کی تہذیبی و مذہبی مظاہر سے وحشت ناک لاتعلقی کا اظہار سامنے آرہا ہے اس سے شیطانی کلمات کے اثرات اور تہذیبی و اخلاقی زوال کا پتا چلتا ہے ۔ جب 1964ءمیں آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا قیام عمل میں آیا تھا، اس کا ایک بنیادی مقصد اکثریت کے اخلاقی زوال کی روک تھام بھی تھا، اس کا ذکر ماہنامہ الفرقان کی خصوصی اشاعت، مولانا محمد منظور نعمانی اور مولانا علی میاں ندوی ؒ کی خود نوشت سوانح ،کاروان زندگی میں بھی مختلف انداز میں پایا جاتا ہے ، غالباً حالات اور دیگر وجوہ سے عمائدین ملت اکثریت کی رہ نما شخصیات سے ملاقاتیں اور تبادلہ خیالات کر کے اس کے اخلاقی زوال کو روکنے کے طریقے نہیں تیار کر سکے اور بعد کے دنوں میں باہمی رابطے کی راہ مسدو دسے مسدو د ہوتی چلی گئی اور اب تک اس کی بہتر راہ پیدا نہیں ہوسکی ہے ، ہماری ملی قیادت، کئی طرح کے تحفظات ،عدم تحفظ اور عوامی دباؤ کا شکار ہو کر کوئی فیصلہ کن متحدہ اقدام کی پوزیشن میں نہیں آسکی ہے ، اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ موجودہ صورتحال کے لیے ملی قیادت یک طرفہ طور سے ذمہ دار ہے ، بلکہ واقعی موجودہ فرقہ وارانہ حالات کے لیے اکثریت اور اس کی مذہبی ، سماجی اور سیاسی رہ نما شخصیات اکثریت اور زیادہ با وسائل ہونے کے ناتے زیادہ ذمہ دار ہیں یہ اور بات ہے کہ واضح پیغام خیر رکھنے کے تناظر میں ملت کے رہ نماؤں کی کئی دیگر وجوہ سے پر امن معاشرے کی تشکیل کی اولین ذمہ داری ہے ۔لیکن اسے کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی اکثریت، عملی طور سے سماج کی تعمیر و تشکیل میں بنیادی و فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے ۔ اکھنڈ بھارت اور وشو گرو(عالمی معلم )کے تصور اور کردار کے دعوی کے ساتھ تنگ نظری ، آئینی و مذہبی آزادی کے خلاف سرگرمیوں کا کوئی جواز نہیں ہے ، برقع وغیرہ کے خلاف جاری فرقہ وارانہ مہم ،بھارت کی مبنی برآزاد روایات سے پوری طرح متضاد و متصادم ہیں ۔
اگر سماج کو تقسیم کرنے والی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے گئے تو ملک و قوم پر بڑے دور رس اور مضر اثرات مرتب ہوں گے، اکھنڈ بھارت کے کھنڈ ہونے کے اسباب و محرکات پر غور کرتے ہوئے یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت کا وسیع جغرافیائی دائرہ محدود سے محدود تر کیوں ہوتا چلا گیا، 1947ءمیں اکھنڈ بھارت کی24ویں تقسیم کی راہ کیوں اور کس طرح ہموار ہوئی ، اکھنڈ بھارت کے زبردست حامی گرو گولولکر کو بھی 1966ءمیں اپنی کتاب Buch of Thoughts کی اشاعت کے بعد اچھی طرح احساس ہو گیا تھا کہ تقسیم وطن ،نفرت کا نتیجہ تھی ، اس لیے تقسیم کے عمل کو روکنے اور از سر نو اکھنڈ بھارت کے قیام کے لیے ذہن و دل کی تبدیلی اور فرقہ وارانہ نفرت کا خاتمہ ضرور ی ہے ، اس کا اظہار انھوں نے اپنی ایک تفصیلی انٹر ویو میں کیا ہے (دیکھیں شری گرو سمگر جلد 9صفحہ40 تا48)
یہ صحیح سمت میں اٹھایا گیا قدم ہے کہ سنگھ سربراہ ، ڈاکٹر موہن بھاگوت اور آر،ایس ایس کی قومی ورکنگ کمیٹی کے رکن اندریش کمار نے نام نہاد دھرم سنسد کی اشتعال انگیز ی سے دوری اور الگ کرتے ہوئے اس پر تنقید کے ساتھ سزا کا مطالبہ اور ہندوتو کے خلاف بتایا ہے ۔ ایسی حالت میں اگر ممتا بنرجی ، بی ،جے پی اور ہندوتو وادیوں کی ہندو دھرم ،ہندستانی سنسکرتی سے نا واقفیت کی جو بات کر رہی ہیں ، اسے غلط قرار دینا مشکل ہے ۔ لالو پرساد کا یہ حالیہ بیان بھی قابل توجہ ہے کہ بھارت خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے، ان دونوں کے ساتھ6 فروری 2022ءکو ممبئی میں قومی یک جہتی اور ہندو تو کے عنوان پر دیے، بھاگوت کے اس بیان کو ملالیا جائے تو بڑی حد تک ، ایک مکمل تصویر بن جاتی ہے کہ (دھرم سنسد میں دیے گئے )”بیانات سے ہندوتو کے پیرو کار کبھی اتفاق نہیں کریں گے ۔ آر، ایس ایس کا یقین لوگوں کو تقسیم کرنے میں نہیں بلکہ ان کے اختلافات دور کرنے میں ہے ۔” اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہندستانی مسلمانوں کو بھارت میں پوری طرح اجنبی بنانا آسان نہیں ہے ۔ ہندو، مسلمان ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کس حدتک کرنا چاہیے ،اور کوشش کس قدر ہوئی ہے ۔ اس پر سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے ۔ معروف مصنف و دانشور ولفریڈ کینٹ ویل اسمتھ نے 1956ءمیں تبصرہ کیا تھا، جسے معروف مصنف کیرن آرمسٹرانگ نے بھی اپنی کتاب Muhammad : A Biography of Prophet کے مقدمے میں نقل کیا ہے ۔ تجزیہ پر مبنی تبصرہ یہ ہے کہ بیسویں صدی کی آزمائشوں پرپورا اترنے کے لیے مغرب اور عالم اسلام دونوں کو انتھک جدو جہد کرنی ہوگی۔ مسلمانوں کو مغربی معاشرے اور مغرب کی کامیابیوں کا اعتراف کرنا ہوگا، لیکن مغرب کی قوموں کو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ اس کرہ ارض پر ان کے ساتھ رہنے والے مسلمان ان سے کمتر نہیں ،برابر ہیں ، مغربی تہذیب اور عیسائیت جب تک دوسرے انسانوں کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک نہیں کرے گی، اسے بیسویں صدی کے حقائق کا ادراک نہیں ہوگا۔
اس پر کیرن آرمسٹرانگ نے 11ستمبر کے المیے کے بعد کے حالات کے تناظر میں تبصرہ کیا ہے کہ اگر ہمیں اکیسویں صدی میں بہتر کار کر دگی کا مظاہرہ کرنا ہے تو اقوام مغرب کو مسلمانوں کے بارے میں مکمل فہم و ادراک حاصل کرلینا چاہیے ، جو اس کرہ ارض پر ان کے ساتھ برابر کے شریک ہیں ، انھیں مسلمانوں کے دین ، ان کی ضروریات ،ناراضی اور ان کی امنگوں کا احترام کرناچاہیے ، نام اور صدی میں تھوڑی تبدیلی کے ساتھ بھارت کے تناظر میں اس کے غیر مسلموں اور مسلمانوں کے تعلق سے ہمارا تبصرہ بھی یہی ہوگا ، تمام محبان وطن کو ایسے بھارت کی تشکیل کے لیے کوشش کرنی چاہیے ، جس پر سب مشترکہ طور پر فخر کر سکیں ، نہ کہ ایسا بھارت، جس پر رونا آئے اور اس کی تصویر دہشت زدہ کردے۔
E-mail:[email protected]
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)