تحریر:دھننجے کمار
یوپی میں تقریباً تین دہائیوں سےاقتدار سے دوربیٹھی ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس نےاترپردیش اسمبلی انتخابات 2022 کےلیے اپنے امیدواروںکی پہلی لسٹ جاری کردی ۔ اس لسٹ میں کانگریس نے 125 امیدواروںکےنام کااعلان کیاہے۔
خواتین ووٹروں کو مرکز میں رکھ کراس بار کا الیکشن لڑرہی ہے کانگریس نے پہلی لسٹ میں 50 خواتین کو جگہ دی ہے۔ یہ کل امیدواروں کا 40 فیصد ہے۔ یہ دیکھاتا ہے کہ ہر اسمبلی انتخابات کےساتھ کمزورہوتی کانگریس اس بار خواتین کےذریعہ یوپی میں اپنی زمین مضبوط کرنےکی کوششوںمیں ہے۔
پارٹی کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے بڑے چہرے نہیں ہیں اس لیے پارٹی نے اس کمزوری کو ایڈوانٹیج میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔
’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ کو زمین پر اتارا
19 اکتوبر 2021 کو ایک پریس کانفرنس میں کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں خواتین کو 40 فیصد ٹکٹ دینے کا اعلان کیا تھا۔ اب جبکہ پہلی فہرست کا اعلان ہوا ہے، کانگریس نے 40 فیصد خواتین کو ٹکٹ دے کر اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ 125 افراد کی فہرست میں 50 نام خواتین کے ہیں۔
کانگریس کی ‘’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ مہم، یوپی کے الگ الگ اضلاع میں مہم اب تک ریلیوں اور میراتھن کے ذریعے آگے بڑھ رہی تھی، لیکن اب اسے کانگریس نے تقویت دی ہے۔
بی جے پی کے خلاف آواز اٹھانے والے بڑے چہروں کو ٹکٹ
کانگریس نے ایسی کئی خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے جنہوں نے حالیہ مہینوں یا سالوں میں بی جے پی کے خلاف ایشو بنایا ہے۔
کانگریس نے ان چہروں پر شرط لگانے کی کوشش کی ہے جو سماجی مسائل کے ذریعے بی جے پی کو سیاسی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال اناؤ گینگ ریپ متاثرہ کی ماں کو ٹکٹ دینا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی کئی اورایسے چہرے ہیں۔
اناؤ ریپ متاثرہ کی ماں آشا سنگھ
اناؤ عصمت دری معاملے کو لے کر کانگریس مسلسل بی جے پی کو نشانہ بنا رہی ہے۔ اناؤ ریپ متاثرہ کی ماں کو ٹکٹ دینے کے بارے میں پرینکا گاندھی نے کہا، ‘ہماری اناؤ سے امیدوار آشا سنگھ ہیں، گینگ ریپ متاثرہ کی ماں۔ وہ الیکشن لڑنا چاہتی ہیں۔ ہم نے انہیں موقع دیا۔ کانگریس نے آشا سنگھ کو ٹکٹ دے کر بڑا دائو کھیلا ہے کیونکہ اناؤ گینگ ریپ کا مرکزی ملزم بی جے پی لیڈر کلدیپ سنگھ سینگر ہے۔
اس ایک فیصلے کے ذریعے پارٹی قانون، انتظامیہ اور خواتین کی حفاظت جیسے مسائل پر اتر پردیش حکومت اور بی جے پی کو ایک ساتھ گھیرتی نظر آ رہی ہے۔ اس سے کانگریس کو بھی انتخابات میں جذباتی فائدہ ملنے کی امید ہے۔
محمد سیٹ سے ریتو سنگھ
اس میں ریتو سنگھ کا نام لکھیم پور کھیری ضلع کی محمد سیٹ سے ہے۔ ریتو سنگھ کو مبینہ طور پر بی جے پی کے حامیوں نے جولائی میں ہونے والے پنچایت انتخابات کے لیے نامزدگی داخل کرنے سے روک دیا تھا۔
آشا ورکر پونم پانڈے
آشا ورکرس لیڈر پونم پانڈے کانگریس کی فہرست میں بڑے ناموں میں سے ایک ہیں۔ جب انہوں نے اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے شاہجہاں پور میں آشا کارکنوں کے مسائل کو لے کر ملنے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں روک دیا۔ ایک پولیس اہلکار پر بدتمیزی کے الزامات بھی لگے۔ کانگریس نے انہیں شاہجہاں پور سے ہی ٹکٹ دیا ہے۔
صدف جعفر کو لکھنؤ سینٹرل سے اپنا چہرہ بنایا
صدف جعفر سی اے اے؍ این آر سی کے احتجاج کے دوران جیل جاچکی ہیں۔ کانگریس نے صدف جعفر کو، جو سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کے دوران جیل جاچکی ہیں ، کو لکھنؤ سینٹرل سے اپنا چہرہ بنایا ہے۔ اس کے ساتھ پارٹی کو سی اے اے مخالف تحریک سے ہمدردی رکھنے والوں کی حمایت ملنے کی امید ہے۔
الپنا نشاد کو الٰہ آباد ساؤتھ سے ٹکٹ
بڑے چہروں میں ایک اور نام الپنا نشاد کا ہے، پارٹی نے انہیں الہ آباد ساؤتھ سے ٹکٹ دیا ہے۔ الپنا نشاد کو مبینہ طور پر غیر قانونی کان کنی کی وجہ سے نشاد برادری کو درپیش مشکلات کے خلاف آواز اٹھانے پر مظالم کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اداکارہ ارچنا گوتم
ارچنا گوتم کو ہستنا پور سیٹ سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ وہ ایک اداکارہ، ماڈل اور مقابلہ حسن کی فاتح ہیں۔ ارچنا گوتم سال 2014 میں مس اتر پردیش بنیں۔ اس کے بعد وہ مس بکنی انڈیا کا خطاب بھی جیت چکی ہیں۔
خواتین کمیشن کی سابق رکن شمینہ شفیق
خواتین کمیشن کی سابق رکن اور سیتا پور سے کانگریس لیڈر شمینہ شفیق کو بھی ٹکٹ دیا گیا ہے۔ ہاتھرس گینگ ریپ سے لے کر حیدرآباد ریپ کیس تک شمینہ نے کھل کر بات کی ہے۔ وہ ایک معروف خاتون کارکن ہیں۔ کانگریس کا ان پر داؤ لگانا بھی خواتین کے ووٹوں کے لحاظ سے بڑا قدم مانا جا رہا ہے۔
لوئیس خورشید، سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کی اہلیہ
سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کی اہلیہ لوئیس خورشید کو فرخ آباد سے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ وہ خواتین کے بڑے چہروں میں سے ایک ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی نے ان خواتین کو زیادہ اہمیت دی ہے جنہوں نے بی جے پی کے خلاف جدوجہد کی ہے یا مقبول ناموں میں سے ایک ہیں۔ کانگریس نے جن خواتین کو ٹکٹ دیا ہے وہ ہر علاقے کی نمائندگی کرتی ہیں۔ صحافی سے سیاستداں بنی ندا احمد، اداکار ارچنا گوتم، پنکھوری پاٹھک، آشا ورکر پونم پانڈے کے علاوہ سماجی کارکنوں اور مظاہرین کو ٹکٹ دیا گیاہے۔
نئے چہروں پر شرط لگانا فائدہ مند یا نقصان دہ؟
اتر پردیش اسمبلی انتخابات سے پہلے کانگریس نے ان خواتین پر دائو کھیلا ہے جو کسی نہ کسی واقعہ میں بی جے پی کے خلاف بڑا نام بن گئی ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ انہیں سیاست کا زیادہ تجربہ نہیں ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب الیکشن کمیشن کی جانب سے جسمانی مہم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ لیکن ایک حقیقت یہ ہے کہ ریاست میں کانگریس کے بعد کچھ ہی مضبوط چہرے ہیں، ایسے میں پارٹی نے اپنی کمزوری کو طاقت بنانے کی کوشش کی ہے۔
مسلمانوں کو کم ٹکٹ، ایس پی پر نرمی دکھانے کی کوشش
مسلم کمیونٹی کو عام طور پر اتر پردیش میں کانگریس کا بڑا ووٹ بینک سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پارٹی نے پہلی فہرست میں صرف 15 فیصد سیٹوں پر مسلم امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ 125 میں سے صرف 19 مسلم امیدوار ہیں۔ یہ واضح ہے کہ کانگریس سماج وادی پارٹی کے زیادہ تر مسلم ووٹوں کو کاٹنا نہیں چاہتی۔ یہاں بی جے پی کے لیے مشکل بنانے کے لیے ایس پی پر نرمی دکھانے کی کوشش ہو سکتی ہے۔
(بشکریہ: دی کوئنٹ ہندی)