حماس کے ایک اعلیٰ سیاسی عہدیدار نے خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کو بتایا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی گروپ پانچ سال یا اس سے زائد عرصے کے لیے جنگ بندی پر تیار ہو کر ہتھیار بھی چھوڑ سکتا ہے۔ بشرطیکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام 1967 کی فلسطینی حدود کی بنیاد پر منظور کر لیا جائے۔
یہ ریمارکس خلیل الحیہ نے بدھ کے روز ایک انٹرویو میں ایسے وقت میں دیے ہیں جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات کئی ماہ سے بے نتیجہ ثابت ہو رہے ہیں۔مبصرین کے مطابق فلسطینی مزاحمتی گروپ کی طرف سے یہ پیشکش ایک غیر معمولی پیش رفت کے طور پر سامنے آئی ہے۔ کیونکہ حماس نے کبھی اسرائیلی ریاست کو قبول کرنے کا عندیہ نہیں دیا بلکہ اس کے خاتمے کا ہدف رکھتی ہے۔
تاہم اس کے باوجود اسرائیل کی طرف سے اس اہم تجویز پر غور کا امکان نہیں ہے۔ کہ اسرائیل سات اکتوبر کے بعد سے مسلسل زور دے کر کہہ رہا ہے کہ وہ حماس کے خاتمے تک جنگ نہیں روکے گا۔ نیز اسرائیل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ خلیل الحیہ حماس کے اعلیٰ عہدیداروں میں سے ایک ہیں۔ وہ حماس کی طرف سے جنگ بندی کے لیے کیے جانے والے حالیہ مذاکرات کا حصہ رہے ہیں۔ وہ استنبول میں ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کر رہے تھے۔
خلیل الحیہ نے کہا ‘حماس ‘پی ایل او’ میں شمولیت چاہتی ہے۔ تاکہ غزہ اور مغربی کنارے پر مشتمل ایک مشترکہ فلسطینی حکومت قائم ہو سکے۔ جو ایک خود مختار فلسطینی ریاست کے امور کو دیکھتی ہو اور جو فلسطینیوں کو ان کا حق واپسی دینے پر یقین رکھتی ہو تاکہ فلسطینی پناہ گزین واپس اپنے گھروں کو فلسطین میں آسکے۔ جیسا کہ بین الاقوامی سطح پر منظور کی گئی قراردادوں میں فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔