نئی دہلی:(پریس ریلیز)
ملک میں بڑھتے نفرت آمیز واقعات اور حکومتی اقدامات کے پیشِ نظر مسلم تنظیموں اور سرکردہ افراد کی نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت نے دو دن کا اجلاس منعقد کیا ہے، جس میں ملی قائدین نے آپسی تفرقات کو ختم کرکے متحدہ لائحہ عمل تیار کرنے کرنے پر زور دیا۔
کانفرنس کے پہلے دن جمعہ کو منعقد عوامی اجلاس میں ملک بھر میں سرگرم ملی تنظیموں کے قائدین اور سماجی کارکنان نے شرکت کی۔ اس موقع پر مقررین نے حالات حاضرہ کا جائزہ لیا اور اُن سے نبرد آزما ہونے کے لیے ممکنہ تدابیر پر گفتگو کی۔
کانفرنس کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا ءبورڈ کے ممبر قاسم رسول الیاس نے کہا کہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ مسلمانوں نے آزادی کے بعد اس طرح کے حالات کا سامنا نہیں کیا ہوگا۔
مسلم مجلسِ مشاورت کے نائب صدر ملک معتصم خان نے اپنے افتتاحی خطاب میں کہا کہ عوام مہنگائی، بے روزگاری اور عورتوں کے تحفظ سے پریشان ہے، لیکن حکومت اپنے ہی ایجنڈے میں مصروف ہے۔ عدلیہ بھی بے گناہوں کو انصاف دینے میں ناکام رہی ہے۔
یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے ملک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں شر پسند عناصروں کے ذریعے نفرت کی فضا عام کی جا رہی ہے ایسے میں بالخصوص ملک کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ایک خلاء پیدا کی جا رہی ہے اور ہندوستان کو کھائی میں ڈالا جا رہا ہے، لیکن اگر تاریخ ہمیں دیکھ رہی ہے تو اسے یہ معلوم ہوگا کہ کس طرح ہم سب مل کر ملک کو اس کھائی سے ضرور نکالیں گے۔
بہوجن سماج پارٹی کے لوگ سبھا ممبر پارلیمنٹ کنور دانش علی نے کہا کہ حالات کے مدنظر ہمیں اپنے تفرقات کو ختم کرکے مشترک ہو کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ماحول ایسا بنا دیا گیا ہے کہ سیاسی لیڈران بھی حق بات کہنے سے کتراتے ہیں۔ ان تمام حالات کا مقصد اس ملک میں تمام اقلیتی طبقات کو کمزور کرنے سے بڑھ کر ملک کے دستور کو بدلنا ہے۔
مسلم مجلسِ مشاورت کی ورکنگ کمیٹی کے رکن مولانا یاسین عثمانی نے کہا کہ ہندوتوا کی نفرتی سیاست کو آبادی کی صرف ایک اقلیت کی ہی تائید حاصل ہے۔ یہ ہماری ذمّہ داری ہے کہ ہم اس ملک کا تحفظ کریں۔
جمعیت اہل حدیث کے صدر مولانا اصغر امام مہدی نے کہا کہ اللہ نے ہمیں اس لیے خیر امت بنا کر نہیں بھیجا ہے کہ ہم محض مسلمانوں کی بقا کے لئے کام کریں یا آواز اٹھائیں۔ ہمیں چاہیے کہ تمام طبقوں کےلئے انصاف کی لڑائی لڑیں۔
امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لائحہ عمل کے متعلق چند تجاویزات پیش کیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں سب سے پہلا کام یہ ہوسکتا ہے کہ امت مسلمہ میں حوصلہ پیدا کیا جائے اور اسے مایوسی سے نکالا جائے. یہ حالات کوئی نئے نہیں ہیں۔ اسطرح کے حالات ہم پر پہلے بھی آتے رہے ہیں۔ دوسرا کام یہ ہوسکتا ہے ہم مسلمانوں اور ملک کے برادرانِ وطن کے ذہنوں اور دلوں کو جوڑیں۔
اتحاد ملت کونسل کے صدر توقیر رضا خان نے کہا کہ جو لوگ بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں وہ نئے نہیں ہیں۔ ہم عرصے سے ان حالات کو دیکھتے آئے ہیں۔ مسلمان کبھی مایوس نہیں ہوتا اور مواقع تلاش کرتا ہے۔ ہم ہمیشہ ملک کے تحفظ کے لیے تیار رہیں گے۔
مسلم مجلسِ مشاورت کے صدر نوید حامد نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مایوسی اسلام کی ضد ہے، مسلمان مایوس نہیں ہوتا۔ اس ملک کا مستقبل اور مسلمانوں کا مستقبل دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ اگر آپ ملک کے اقلیتی طبقات کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ملک کے غدار ہیں۔
عوامی اجلاس کے علاوہ اس کانفرنس میں اتحاد اُمّت، فسطائیت اور نسل کشی، آئینی حقوق کو درپیش خطرات اور اقلیتوں کی تعلیم کے مسائل جیسے موضوعات پر ماہرین اور سماجی کارکنان کے مذاکرات بھی منعقد کیے جائیں گے۔