قاسم سید
یہ ایک کھلا راز ہے کہ اتر پردیش کی یوگی سرکار مسلمانوں کوہر سطح پر دیوار سے لگا رہی ہے۔ چوطرفہ یلغار اور سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت ریاست کے بڑے ، سینئر د بنگ مسلم لیڈروں کی کردار کشی،ذلیل ورسوا کرنے اور بے وقعتی کے لیے ہر حربہ آزما رہی ہے، اس کی بین مثال محمد اعظم ہیں ۔
ایک طرف ان کی خون پسینے سے قائم جوہر یونیورسٹی کو قانون کی غلط تعبیرو تشریح اور عدالتی فیصلوں کے سہارے قدم بقدم بلڈوزکیا جا رہا ہےوہیں ان پر سو سے زائد مقدمات قائم کر کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ان کو نیم مردہ حالت میں اسپتال سے جیل اور جیل سے اسپتال منتقلی کے ذریعہ ذہنی وجسمانی طور پر توڑنے اور مفلوج کرنے کی شرمناک سازشیں بھی جاری ہیں۔ علی گڑھ کے تعلیم یافتہ،نو بار کے ایم ایل اے،دوبار ایم پی متعدد مرتبہ پارلیمانی امور سمیت کئی اہم وزارتیں سنبھال چکے یو پی کے سب سے طاقتور مسلم لیڈر کو مرغی چور، بکری چور اور کتاب چور کہہ کر پکارا گیا اور ان الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے اس سے زیادہ ذلت اور کیا کی جاسکتی ہے۔پھر عام مسلمان کی اوقات کیا۔
شرم آتی ہے کہ ہمارے ایک بڑے لیڈر کو ریاستی مشینری سے لوہا لینے کے لیے اسی کی قائم کردہ پارٹی ہی نہیں بلکہ ملت نے بھی تنہا چھوڑ دیا ،دور دور تک کڑی دھوپ ہے صحرا ہے اور جیسے اس کے اوپر جنگلی کتے چھوڑ دیے گئے ہیں وہ اس کو بھنبھوڑ رہے ہیں، لہو لہان کر رہے ہیں ،مگر اس کی العطش العطش کی آواز کا کوئی جواب نہیں شاید ہماری غیرت و حمیت منوں مٹی میں دفن ہوگئی ۔
سماجوادی پارٹی اور اس کی قیادت سے کیا شکوہ وہ تو اپنی کرنی کو بھگتے گی،سوال تو مسلم جماعتوں اوران کے لیڈروں کا ہےجومعاف کیجیے نہ جانے کیوں اس پامالی و بے توقیری پر خاموش ہیں۔ چلیے مان لیں کہ اعظم خاں سے الرجی ہے ،ان کے جارحانہ لب ولہجہ نے دلو ں کو زخمی کیا ہے،ان کے طرز سیاست سےشکوہ ہے،انہوںنے علماء وکبار کو آڑے ہاتھوں لیا،ان سے اختلاف و ناراضگی کا شرعی جواز ہے،اعظم خاں کے ساتھ جو ہورہا ہے وہ اس کے مستحق ہیں،فرض کرلیں کہ یوگی سرکار جو کررہی وہ کم ہے،لیکن جوہر یونیورسٹی نے کیا بگاڑا ہےجو آزادی کے بعد پہلی ایسی دانش گاہ ہے جس میں علی گڑھ کی جھلک ہے،یہ سرسید کی مانند اعظم خاں کا ڈریم پروجیکٹ ہے،مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دور کرنے کی سمت میں بڑا قدم ہے اگر اسے سکون کی سانسیں ملیں۔یوگی سرکار اس پر بلڈوزر چلارہی ہے تب بھی ہم خاموش ہیں یہ حسی ہے یا خوف،کہنا مشکل ہے۔آج اس کے مین گیٹ کا نمبر ہے کل بلڈوزر عمارتوں کو ڈھائے گا۔فوج پہلے فصیلوں میں شگاف اور قلعہ کے گیٹ کو توڑتی ہے اگر اس مرحلہ پر مزاحمت نہ ہوتو قلعہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔سوال یہی ہے کہ بلا استثنیٰ مسلم تنظیمیں آخر خاموش کیوں ہیں ،ان کے منھ پر تالا کیوں ہے۔چھوٹے چھوٹے ایشو پر بیانات دینے والے جوہر یونیورسٹی کی ممکنہ تباہی پر مہر بہ لب کیوں ہیں،کیا اعظم خاں کے رویہ سے دل برداشتہ ہونے کی سزا یونیورسٹی کو دی جائے گی وہ تو قوم کا ادارہ ہے ،کیا یہ شکایت ہے کہ جوہر یونیورسٹی پر ان کے خونی رشتے داروں کا قبضہ ہے تو کیا صرف ان کے رشتے دار ہی فیضیاب ہورہے ہیں،کیا ہمارے مدارس و خانقاہوں کی اکثریت پر خاندانی اجارہ داری نہیں ہے ؟
کیا الا ماشاء اللہ ہماری نیم مذہبی نیم سیای تنظیمیں خاندانی نظام کے تسلط سے آزاد ہیں؟ کیا جوہر یونیورسٹی پر اس پراسرار سکوت کی وجہ جاننے کا حق نہیں،کیا اعظم خاں اور یونیورسٹی مورل سپورٹ کے بھی حق دار نہیں ہم اتنے سخت دل ،بے رحم، شفیق قلب تو نہیں تھے۔کیا یونیورسٹی کے تحفظ کے جمہوری ،قانونی ذرائع اختیار نہیں کیے جاسکتے،دھرنے مظاہرے،میمورینڈم دے کر سرکار پر دباؤ تو بنایا جاسکتا ہے،یہ لڑائی perception کی ہے،ہم تین طلاق پر ہارگئے، بابری مسجد نہیں بچا سکے اب جوہر یونیورسٹی داؤ پر ہے۔ اسے بھی نہیں بچاسکتے تو تھوڑا انتظار کیجیے،یہ ہتھوڑا آپ کے دروازے اور ادارے تک بھی پہنچ سکتا ہے،کوئی بچانے نہیں آئے گا دربہ کی مرغیاں ایک ایک کرکے ذبح ہوجائیں گی وہ کم از کم تھوڑی دیر ہی سہی جب ہاتھ اندر آتا ہے کمزور احتجاج تو کرتی ہیں ہم ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔
یاد رکھیں یہ ہمارا ٹسٹ ہے ناکام ہوئے تو جوہر یونیورسٹی کا خون ہم سب کی گردن پر ہوگا۔