تحریر: مسعود جاوید
پچھلے دنوں ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں ایک نو سالہ بچی کے ساتھ عصمت دری اور مار کر جلا دینے کے انسانیت سوز واقعہ نے ہر اس شخص کو جس کے سینے میں دھڑکنے والا دل اور حساس دل و دماغ ہے اسے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسی حیوانیت پر غم وغصہ کی کیفیت طاری ہونا فطری ہے ۔ غالباًدارلحکومت میں ہونے کی وجہ سے فوری ردعمل سامنے آئے ہیں ، متعدد سیاسی پارٹیوں اور انسانی حقوق کے ادارے اس کا نوٹس لیتے ہوئے خاطی پولیس افسران کے خلاف ایکشن اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔’’سیاسی مفادات کی برآوری‘‘ کے لئے اظہار ہمدردی ہو یا انسانی جذبے کے تحت، یہ بہرحال قابل ستائش ہے ۔
از خود نوٹس لینے والے اداروں میں ایس سی ایس ٹی کمیشن بھی ہے اور ان کا یہ اقدام قابل ستائش ہے۔
بلا تفریق مذہب ذات برادری اور علاقہ ہم سب مذکورہ بالا واقعہ کی مذمت کرتے ہیں اور اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرنا ہمارا انسانی اور سماجی فریضہ ہے۔
ایسے واقعات اور ان پر سماج کے متعدد تنظیموں اداروں اور سیاسی پارٹیوں کی یکجہتی جب سامنے آتی ہے تو ایک سوال پریشان کرتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسی ہی ظلم و زیادتی جب ہوتی ہے تو اس کے خلاف غم وغصہ، مظلوم کے ساتھ ہمدردی اور ظالم کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا۔ سیاسی پارٹیوں کی خاموشی کے اسباب کیا ہیں؟ اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ پچھلے چند سالوں کے دوران یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اقلیتوں کے مسائل پر بیان دینا حتی کہ ان کے دستوری حقوق کے حوالے سے یکجہتی کا مظاہرہ کرنا بھی اکثریتی طبقے کو ناراض کرنا ہے ۔
دوسری وجہ ہے دستوری پیچیدگی۔ اقلیتوں پر ظلم و زیادتی کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ تاہم ’’اقلیتوں‘‘ میں عمومیت کی وجہ سے موثر اقدام نہ اٹھائے جانے کے خدشات کے پیش نظر اقلیتوں میں سے دلتوں کے لئے خصوصی ایکٹ بنایا گیا۔ عملی طور پر اس پر کس قدر عملدرآمد ہو رہا ہے اس سے قطع نظر، دلت اتیاچار ایکٹ کا فائدہ بہر حال دلتوں کو ہوا۔ اب حقیر ترین سمجھی جانے والی اس مخلوق کو اونچی ذات والے انسان ماننے کو مجبور ہیں۔ اب کرسی، صوفہ یا تخت پر بیٹھے کسی اونچی ذات کے سامنے کسی دلت کو فرش پر بیٹھنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔ اب کسی دلت کو ابے تبے اور بدتمیزی سے مخاطب نہیں کیا جاتا۔ اور اگر ایسا کیا جاتا ہے یا گھوڑی سے اتار دیا جاتا ہے یا ان کے گاؤں کے بجلی کنکشن کاٹ دیا جاتا ہے تو ایسا کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جاتی ہے۔
ہم امریکہ اور یورپ سے اس قانون کا موازنہ نہیں کر سکتے جہاں کسی سیاہ فام کو نیگرو یا کسی اور توہین آمیز لفظ سے مخاطب کرنا قانونی جرم ہے اور امریکہ میں جرم جرم ہے بلا رو رعایت جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیتا ہے۔ پھر بھی دلت اتیاچار قانون قابل ستائش ہے۔
مسلمان بھی اس ملک میں اقلیت ہیں بلکہ اقلیتوں میں سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ تاہم دلتوں کی طرح ان کے لئے خصوصی مراعات یا مسلم اتیاچار قانون نہیں ہے اور اس کی وجہ دستور ہند کا وہ شق ہے جس کا مفہوم ہے کہ کسی بھی مذہب کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔یعنی مسلمان کے نام پر کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔ نہ حق میں اور نہ خلاف کوئی کام کیا جائے گا۔
اس دستوری پیچیدگی کی وجہ سے مسلمانوں کو کئی قسم کی مراعات سے محروم ہونا پڑتا ہے ۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت دلتوں کی بہ نسبت ہر فیلڈ میں ابتر ہے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ مذہب مربوط ہے اس لئے مسلمانوں کے لئے دلتوں کی طرح علحدہ تعلیم ، سرکاری ملازمت اور روزگار کے مواقع میں ریزرویشن نہیں، (ہاں اقلیتوں کے ضمن میں مسلمان مستفید ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں) مسلم اتیاچار قانون نہیں، مسلم اکثریتی علاقوں کے پولیس اسٹیشنوں میں مسلم افسران کی تعیناتی نہیں وغیرہ وغیرہ۔
مجھے اپنے دوست ننکا یادو کی آج سے دس سال پہلے کی وہ بات یاد آرہی ہے جو اس نے ایس سی/ ایس ٹی ریزرویشن کے تعلق سے کہی تھی کہ آنے والے پانچ سات سال بعد آپ دیکھیں گے کہ ہر بلوک میں بی ڈی او اور سی او اور دیگر محکموں میں افسران پولیس تھانے میں تھانیدار اور دیگر نچلی ذات کے لوگ ملیں گے اسی طرح ضلع اور ریاست کے محکموں میں ہمارا وجود محسوس کیا جائے گا۔ اس نے کہا تھا کہ ہمارے اس وجود کے بعد ایف آئی آر کرنے سے انکار کرنا آسان نہیں ہوگا۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کے سامنے دستور کا وہ شق پیش کر دیا جاتا ہے جس کی وجہ 2008سے 2014تک زیر غور رہنے اور متعدد بار ترمیم کے باوجود کانگریس پارٹی اقلیت ‘ مخالف؍ مسلم مخالف ٹارگیٹڈ کمیونل رائٹ ڈرافٹ ‘ پارلیمنٹ میں پیش نہیں کر سکی۔
اقلیتوں کے لیے خصوصی مراعات کا جہاں تک معاملہ ہے حکومت کی اسکیموں سے عیسائی، جین، بودھ اور سکھ کی تنظیمیں، بہت فعال و متحرک رہنے کی وجہ سے ، زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لیتی ہیں۔ ہماری ملی تنظیمیں مستحقین کو بر وقت ان لائن اپلائی کرنے یا اسکول و ہسپتال کے لئے حکومتی فنڈ حاصل کرنے میں پیچھے رہتی ہیں۔ ان کے پاس ایسا کوئی میکانزم نہیں ہے جس سے وہ بر وقت مستحق لوگوں کو متنبہ کریں اور اپلائی کرنے میں مدد کریں۔