(دیوبند سے خاص رپورٹ)
ہم پچھلے دس سال سے صبر کررہے ہیں ہم پر زہر اگلنے کا الزام لگایا جارہا ،لیکن جو لگاتار ز ہر اگل رہے ہیں ان سے کوئی سوال نہیں کرتا،ہم تکنیکی طور پر اقلیت ہیں، جبکہ ہم خیال لوگ اکثریت میں ہیں ۔نفرت کے سوداگراصل میںاقلیت میں ہیں۔ جمعیۃ علماءہند کے صدر مولانا محمود مدنی نے اجلاس کے آخری دن اختتامی تقریر کے دوران یہ بات کہی۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ مین اسٹریم اور اردو میڈیا کے ایک حصہ نے میری باتوں کو اپنے انداز سے پیش کیا ۔ان کے اپنے تحفظات ہوں گے ،انہوں نے کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم آرام سے ہیں اس لیے صبر کی تلقین کی جارہی ہے ۔مولانا مدنی اپنے اوپر سی بی آئی کیس سے لے کر سرکار کی طرف سے مختلف زیادتیوں کا تذکرہ کیا اور کہا ہم بھی آزمائشوں سے گزررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی باتیں کرنا کیا مناسب ہے۔
کامن سول کوڈ کے حوالہ سے کہا کہ مسلمان اگر شریعت پر عمل کا فیصلہ کرلے تو کوئی قانون اس کے آڑے نہیں آئے گا ۔انہوں نے تین طلاق قانون پر کہا کہ آپ نے طلاق پر پابندی لگادی تو کیا یہ سلسلہ رک جائے گا۔ اسلام کے طریقے سے طلاق دیں قانون آڑے نہیں آئے گا۔
مولانا نے کہا کہ ہمیں اندرونی بحران کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اسی کے ساتھ برادران وطن کو جوڑنے کی ضرورت ہے ۔
عیدملن پر ’کھلے دشمنوں‘ کو بلانے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہم انہیں باربار بلائیں گے ۔ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے۔ غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کشمیر پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا وہ موقف ہوا کے خلاف تھا ہم نے ہمیشہ ملک و قوم کے مفاد کو ترجیح دی اگر اس ملک کی حفاظت کے لئے ہمارا خون بہے گا تو یہ سعادت کی بات ہوگی یہ ہمارا ملک ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا ۔
تم کو ہمارا مذہب برداشت نہیں تو تم کہیں چلے جاؤ جس کو بھیجنے کا شوق ہے وہ کہیں اور چلا جائے ۔آخر میں مولانا نے شرکا کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا۔