کلیم الحفیظ ۔نئی دہلی
مسلمانوں کی تاریخ میں کربلا کا واقعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس کی اہمیت اور سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس واقعہ کو گزرے ہوئے آج چودہ صدیاں گزرچکی ہیں مگر اس کا ہر کردار زندہ اور ہر زخم تازہ محسوس ہوتاہے۔ایسا لگتا ہے جیسے یہ کل کا ہی واقعہ ہو۔اس کی ایک وجہ تو مسلمانوں کا ہر سال اس واقعہ کی یاد میں محفلیں منعقد کرکے اور منظر کشی کرکے اس کو زندہ رکھنا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا کے کسی نہ کسی خطے میں اس دن سے آج تک تسلسل کے ساتھ حسینی کردار یزیدی کردار سے بر سر پیکار ہے۔وطن عزیز بھارت میں تو ہر دن کربلا کی یاد تازہ کرادینے والے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔کہیں کوئی سادھو مہاتما حسین ؓ کے نانا کی شان میں گستاخانہ کلمات کہتا ہے،کہیں حسینؓ کے نام لیوا کی لنچنگ کردی جاتی ہے ،کہیں ملے کاٹے جائیں گے کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔آدم اور ابلیس کی جنگ ازل سے ابد تک جاری رہے گی ۔امام حسینؓ اور یزید کے یہ کردار ہمیشہ زندہ رہیں گے ،دنیا میں خیر و شر کے معرکے تا قیامت ہوتے رہیں گے۔اس لیے کہ :
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
البتہ اس معرکہ ٔ خیر و شر میں چراغ مصطفوی رکھنے والوں کا امتحان ہے کہ وہ تیز و تندہوائوں ،ہولناک آندھیوں اور تباہ کن طوفانوں کے درمیان چراغ مصطفوی کو کس طرح روشن رکھتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں اہل ایمان نے اپنے اندر حسینی کردار کو زندہ و باقی رکھا ہے وہاں وہاں چراغ مصطفوی کی لَو بجھنے کے بجائے اور تیز ہوئی ہے۔فلسطین میں ستر سال سے حق و باطل کے درمیان جنگ جاری ہے مگر اہل حق کی شجاعت و استقامت کے سامنے باطل سرنگوں ہوتا جارہا ہے۔خطۂ افغانستان میںبھی اہل حق ستر سال سے سپر پاورز سے نبرد آزما ہیں اور تا حال فتح کا پرچم لہرارہے ہیں۔دنیا کی سپر پاور کو بوریہ نشینوں نے جس ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا ہے وہ حالیہ تاریخ کا روشن باب ہے۔
بھارتی میدان کربلا میں ایک طرف حسین ؓ کے نام لیوا ہیں اور دوسری طرف حسینی نام سے نفرت کرنے والے ہیں۔چونکہ دنیا دارالاسباب ہے ۔اس لیے اس جنگ میں فتح اسی گروہ کو ہوگی جو اپنی فکرکی مضبوطی کے ساتھ ساتھ ظاہری اسباب سے بھی آراستہ ہو۔اس پہلو سے اگر جائزہ لیا جائے تو بھارت میں باطل تحریکیں زیادہ مضبوط نظر آتی ہیں ۔وہ اپنے مشن کے تئیں جس طرح سنجیدہ ہیں،اس کے لیے جس انداز کا ایثار کررہی ہیں اور جس منصوبہ بندطریقے پر آگے بڑھ رہی ہیں ہمارے یہاں اس کا فقدان ہے۔33کروڑ دیوتائوں کے ماننے والے جس طرح متحد ہیں ہم ایک خدا کے ماننے والے اس سے زیادہ منتشر ہیں۔ان کے یہاں جس سطح کی سنجیدگی ہے ہمارے یہاں اس سے کہیں زیادہ غیر سنجیدگی ہے،منصوبہ بندی اور پلاننگ کے الفاظ تو ہماری لغت کا حصہ ہی نہیں۔ان حالات میں ہم کس طرح فتح کی امید رکھ سکتے ہیں۔
واقعہ کربلامیں حضرت حسین ؓ کے کردارکا اگر بغور مطالعہ کیاجائے تو آج کے تناظر میں امت مسلمہ کے لیے کئی اہم اسباق موجود ہیںجو آج کے حالات میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔پہلا سبق یہ ہے کہ امت کو مداہنت سے کام لینے اور رخصتوں کا حیلہ کرنے کے بجائے استقامت اور عزیمت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔آزادی کے 75سال بعد آج جس ذلت کے مقام پر امت کھڑی ہے اس میں حکمت و مصلحت کی آڑ میں ہمارے بزدلانہ اقدامات کا اہم رول ہے۔ایک ایک کرکے مسلمانوں کے حقوق پر شب خون ماراجاتا رہا،ادارے ختم کیے جاتے رہے،مسلم اکثریتی علاقوں کونظر انداز کیا جاتا رہا اور ہم ہر بار ایک قدم پیچھے ہٹتے رہے ۔ہم نے کسی مقام پر بھی استقامت نہیں دکھائی،بلکہ حیلوں اور رخصتوں کی آڑ میں بزدلی کو حکمت و مصلحت اور منشائے خداوندی کا خوبصورت نام دے کر اطمینان کی سانس لی۔جب کہ حضرت امام حسین ؓ نے اپنے موقف میں ذرا لچک پیدا نہیں کی ،نہ یہ دیکھا کہ میری قوت اور تعداد کیا ہے اور نہ کسی رخصت سے فائدہ اٹھایا بلکہ باطل کے سامنے سینہ سپرہو گئے جب کہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس معرکے میں ان کی اور ان کے اہل خانہ کی جان چلی جائے گی ۔امت مسلمہ کا ہر فرد اگر یہ کردار اپنے اندر پیدا کرلے ،یا حسینؓ کا نعرہ لگانے والے اور ان کے غم میں سینہ کوبی کرکے لہولہان کرنے والے ،دہکتے انگاروں پر چلنے والے اگر عملی زندگی میں یہی جواں مردی دکھانے پر اتر آئیں تو کوئی سینا اور واہنی ان کے مقابلے پر نہیں ٹھہر سکتی۔
واقعہ کربلا کا دوسرا اہم سبق اپنی آزادی کی حفاظت کا ہے۔یزید نے جس آمریت کا اعلان کیا تھا وہ انسانوں کو انسان کا غلام بنانے والی تھی وہاں ضمیر کی آزادی کو غلامی کی بیڑیوں میں قید کیا جارہا تھا،ٹھیک اسی طرح آج بھارت میں حکمراںہمارے دسترخوان اور بیڈ روم کے لیے حکم نامہ جاری کرکے ہماری آزادی کو غلامی کی بیڑیاں پہنا رہے ہیں ۔فاشزم کا یہ آمرانہ رویہ بہت جلد یہاں کے عوام کی اکثریت کو اپنی غلامی میں لے لے گا اور ملک پر چند لوگوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوجائے گا۔اس موقع پر بھی حسین ؓ کی یاد میں مجالس عزا کا اہتمام کرنے والوں کو اپنے اندر حسینی کردار پیدا کرنا چاہئے اس لیے کہ امام حسین ؓ کا قول ہے۔’’عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے‘‘۔یزید کی طرف سے بیعت کے مطالبے پر آپ کے سنہرے الفاظ تاریخ میں درج ہیں۔’’ خدا کی قسم، اپنا ہاتھ ذلت کے ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح تمہارے آگے نہیں جھکوں گا۔‘‘امام عالی مقام نے جو کہا اس کو کرکے دکھا یااور امت کو یہ راستا دکھایا کہ وہ اپنی آزادی کو ہر قیمت پر باقی رکھیں پھر ان کے نام لیوا کس طرح اپنے لیے ذلت اور غلامی کو پسند کررہے ہیں ۔ان کی جانب سے کوئی پر عزم آواز کیوں نہیں سنائی دیتی؟
کربلا کا حادثہ کوئی رسمی چیز نہیں ہے کہ ہر سال اس کو یاد کرنے کی محض وہ رسمیں ادا کی جائیں جو آبائو اجدا دسے چلی آرہی ہیں ۔تاریخ محض پڑھنے اور پڑھ کر سردھننے کا نام نہیں ہے ۔امام حسین ؓو آل حسین کی شجاعت صرف بیان کرنے کی حد تک نہیں ہے۔امام حسین ؓ کے مراثی محض کوئی رزمیہ شاعری کا حصہ نہیں کہ سن کر لطف اندوز ہواجائے۔ آل حسین ؓ کی شہادت کا غم تازہ رکھنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ہم خاص تاریخ کو بین کرکے اورآنسو گرا کر خاموش ہوجائیں بلکہ یہ واقعات اور یہ کردار ہمارے دل میں حشر پیدا کرنے کے لے ہیں۔ہمارے حوصلوں کو جوش دینے اور ہمارے لہو کو گرم رکھنے کے لیے ہیں۔اگرماہ محرم کا یہ اندوہناک واقعہ کربلا بھی ہمارے اندردبی چنگاری کو شعلہ نہیں بناتا تو اپنی غلامانہ حالت میںکسی تبدیلی کا انتظار مت کیجیے اس لیے کہ تبدیلی یاحسینؓ کے نعروں سے نہیں حسینی کردار پیدا کرنے سے آتی ہے ،دنیا آپ کے اندر اسی کردار کی متلاشی ہے ۔
نام لینا ہی نہیں کافی عزادار حسینؓ
ڈھونڈتی ہے آج دنیا ہم میں کردار حسینؓ