ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ہم میں سے ہر شخص نے کبھی نہ کبھی ٹرین کے جنرل ڈبّے میں ضرور سفر کیا ہوگا _ تہواروں کے موقع پر خاص طور سے زبردست رَش ہوتا ہے اور تِل دھرنے کی جگہ نہیں رہتی _ ڈبّہ کھچاکھچ بھرا ہوا ہو تو باہر سے کسی آدمی کا اس میں داخل ہونا آسان نہیں ہوتا _ دروازے یا کھڑکی کے پاس اس کے پہنچتے ہی اندر سے آوازیں آنے لگتی ہیں :’ یہاں جگہ نہیں ہے ، تم اندر نہیں آسکتے ’ ایک طرف وہ آدمی دروازے کو دھکا دے کر اندر داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف اندر کے لوگ دروازہ کھولنے پر آمادہ نہیں ہوتے اور اسے اندر نہیں آنے دیتے _ کافی جدّوجہد کے بعد اگر وہ ڈبّے کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو فوراً اس کا رویّہ بھی انہی لوگوں جیسا ہوجاتا ہے جو پہلے اسے اندر نہیں آنے دے رہے تھے _ وہ بھی چیخ چیخ کر باہر والوں سے کہتا ہے : ’’ اندر جگہ نہیں ہے ، تم یہاں نہیں آسکتے _‘‘
آبادی کو کنٹرول کرنے کے مقصد سے ہندوستان کی ریاست اترپردیش کی حکومت ‘نئی آبادی پالیسی (New Population Policy) لانے کی تیاری میں ہے ۔ اس کے لیے اس نے ایک کمیشن تشکیل دیا ہے ، جس نے آبادی کنٹرول قانون کا مسودہ تیار کرلیا ہے _ اس مسودے کو سرکاری ویب سائٹ پر اپلوڈ کردیا گیا ہے اور 19 جولائی تک عوام سے اس پر رائے طلب کی گئی ہے ۔ مجوزہ قانون کے تحت دو سے زیادہ بچوں کے باپ کو کسی بھی سرکاری سبسڈی یا فلاحی اسکیم کا فائدہ نہیں ملے گا ۔ اس کے علاوہ ایسا شخص کسی سرکاری نوکری کے لیے بھی درخواست نہیں دے سکے گا ۔ اس مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو مقامی بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے پر بھی پابندی ہوگی اور یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ آبادی پر کنٹرول کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے تمام سیکنڈری اسکولوں میں ایک مضمون شامل کیا جائے گا ۔
بِل لانے والوں کا رویّہ کھچاکھچ بھرے ٹرین کے ڈبّے کی یاد دلاتا ہے اور وہی منظر نگاہوں میں گھوم جاتا ہے _ کتنی عجیب بات ہے کہ جو لوگ پیدا ہوگئے ہیں وہ ان کو روکنا چاہتے ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں _ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ (یوگی) کے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں _ ملک کے وزیر اعظم (مودی) کی ایک بہن اور چار بھائی ہیں _ اسی طرح ملک کی پارلیمنٹ اور ریاست کی اسمبلی کے ممبران کے خاندانوں کو دیکھا جائے تو ان میں سے بہت سوں میں ہر ایک کے یہاں دو سے زیادہ افراد ہوں گے ، بلکہ پیدائش میں خود ان ممبران کا نمبر تیسرا ، چوتھا یا اس کے بعد کا ہوگا _ اگر یہ قانون ملک میں پہلے نافذ ہوگیا ہوتا تو خود وہ نہ پیدا ہوپاتے _۔
کہا جاتا ہے کہ ملک کے وسائل محدود ہیں _ اگر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول نہ کیا گیا تو سب کے لیے اسبابِ معاش فراہم کرنا ممکن نہ ہوگا _ اس بات کی کوئی منطق نہیں ہے _ ملک کی آبادی جب بیس کروڑ تھی تب بھی روزی کی فراوانی تھی ، جب ستّر کروڑ ہوئی تب بھی لوگ بھوکوں نہیں مرے اور اب ایک ارب انتالیس کروڑ سے زائد ہوگئی ہے تو بھی لوگ جی رہے ہیں _ پہلے جن زمینوں میں پیداوار بہت کم ہوتی تھی اب اس میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے _ مسئلہ آبادی کو کنٹرول کرنے کا نہیں ، بلکہ وسائلِ زندگی کی صحیح طریقے سے تنظیم ، وسائلِ معاش کی منصفانہ تقسیم ، سماج میں عدل و قسط کے قیام ، ظلم و استحصال کے خاتمہ اور لوٹ کھسوٹ پر قدغن کا ہے _ کام کرنے والے افراد (Man Power) کی اہمیت ہر زمانے میں رہی ہے _ اگر تعلیم کو فروغ دیا جائے ، صنعتیں قائم کی جائیں ، لوگوں کو ہنر سکھائے جائیں اور ان کی صلاحیتوں اور مہارتوں کو استعمال کیا جائے تو آبادی چاہے جتنی بڑھ جائے ، کبھی قِلّتِ وسائل اور قِلّتِ معاش کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا _
تحدید نسل کے بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر بہت واضح اور دو ٹوک ہے _ کس شخص کے کتنے بچے ہوں گے؟ ان میں سے کتنے لڑکے اور کتنی لڑکیاں ہوں گی؟ اور کون جوڑے بے اولاد ہوں گے؟ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ تقدیر پر منحصر ہے _ اللہ تعالیٰ اپنی مشیّت سے آبادی پر کنٹرول رکھتا ہے اور ایک تناسب کے ساتھ اس میں اضافہ کرتا ہے _ اللہ تعالیٰ اپنی اس مشیّت میں انسانی دخل اندازی کو پسند نہیں کرتا ، چنانچہ تحدیدِ نسل کے مصنوعی طریقے اختیار کرنا قتلِ اولاد کے مترادف ہے _ قرآن مجید میں کہا گیا ہے : ’’ اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو ۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی ۔ درحقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے ۔‘‘( الإسراء :31) جس طرح اولاد کے پیدا ہونے کے بعد اسے قتل کرنا جرم ہے اسی طرح اولاد کو پیدا نہ ہونے دینا بھی ایک غلط عمل ہے _۔
دانش مندی کا تقاضا ہے کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے وسائلِ معاش کو بڑھانے ، عدل و انصاف کو یقینی بنانے اور ظلم و استحصال کا قلع و قمع کرنے کی کوشش کی جائے _ اگر ایسا کیا جائے تو آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے نئی آبادی پالیسی بنانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی _۔