تحریر: نریندر بھلا
اخلاقیات کے سب سے بڑے دانشور آچاریہ چانکیہ نے کہا تھا کہ ’’اگر آپ سیاست میں ہیں اور طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کا خواب دیکھ رہے ہیں تو آپ کو عوام کے پرانے زخموں کو تازہ کرتے ہوئے یہ احساس دلانا ہوگاکہ اسے ختم کرنے کی واحد دوا آپ ہی دے سکتےہیں۔‘‘ اتر پردیش کے انتخابی دنگل میں چانکیہ کی اسی پالیسی پر چلتے ہوئے فی الحال بی جے پی بازی مارتے ہوئے نظر آرہی ہے۔ کیا اسے محض اتفاق سمجھا جائے گا یا ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ ایک ہی دن میں بی جے پی کے تین سینئر لیڈر انتخابی مہم چلانے کے لیے مغربی اتر پردیش کی سرزمین پر پہنچ گئے، جہاں کسانوں کی تحریک کی وجہ سے لگی آگ کی گرمی ابھی تک برقرار ہے۔ لیکن بی جے پی یہ جانتی ہے کہ کسانوں کی حالت زار کوچھیڑ ے بغیر اس ایشو کوپھر سے زندہ کیاجائے، جس کے دم پر اس نے پانچ سال پہلے ملک کی سب سے بڑی ریاست کی اقتدار حاصل کی تھی ۔
ویسے تو میڈیا چاہے کتنے ہی تمغے دیتا رہے کہ بی جے پی میں صرف دو تین تجربہ کار لیڈر ہیں، لیکن جو لوگ آر ایس ایس کے نظریے سے جڑے ہوئے ہیں اور بے لوث طریقے سے اس کی پیروی کرتے ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں کوئی بھی الیکشن ہو،سنگھ ہی سب سے پہلے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو یہ زمینی حقیقت بتاتا ہے کہ اس انتخابی ریاست میں آپ کی سب سے کمزور نبض والا علاقہ کون سا ہے ، جسے فتح کئے بغیر اقتدار میں آنا مشکل ہے۔ ظاہر ہے کہ پارٹی قیادت بھی سنگھ سے ملے ’ فیڈ بیک‘ کی بنیاد پر ہی اپنی آگے کی حکمت عملی طے کرتی ہے۔ ویسے بھی بی جے پی کے قیام کے ان 42 سالوں میں پارٹی کے کسی بھی مضبوط لیڈر نے سنگھ کی تجاویز اور ہدایات کو رد کرنے کی ہمت نہیں کی۔
وزیر داخلہ امت شاہ، بی جے پی صدر جے پی نڈا اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کا یوپی کی جاٹ لینڈ میں ایک ہی دن میں اترنا کوئی اتفاق نہیں ہے، بلکہ سنگھ کے رضاکاروں کے ذریعے زمین سے ملنے والی ان فیڈ بیک کا نتیجہ ہے۔ کہ اگر مغربی یوپی کو سر نہیں کر سکے تو سمجھ لیجئے کہ اس بار آپ یوپی کے اقتدار سے چلے گئے ہیں۔یہ وہ علاقہ ہے جہاں جاٹ اور مسلم آبادی کی اکثریت ہے، جہاں اسمبلی کی 136 سیٹیں ہیں اور پچھلی بار یعنی 2017 کے انتخابات میں بی جے پی نے تمام سیاسی فارمولیشن کو تہس نہس کر دیا۔سب سے بڑی کامیابی یہاں سے ملی۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے تقریباً آٹھ ماہ قبل مظفر نگر میں فرقہ وارانہ فسادات کے شعلے بھڑک اٹھے تھے۔ نتیجتاً جاٹ اور مسلمان جو کئی سالوں سے اکٹھے رہ رہے تھے، ان کے درمیان دشمنی کا رشتہ تھا۔ اسی ضلع کے کیرانہ قصبے سے ہندو نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کوئی ان کی آواز سننے کو تیار نہیں تھا کیونکہ یوپی میں سماج وادی پارٹی کی حکومت تھی اور مرکز میں کانگریس کی قیادت والی یو پی اے کی حکومت تھی۔ ایسے میں بی جے پی کے مقامی لیڈروں نے اس کا مقابلہ کیا اور لوگوں میں اپنی جگہ بنائی، نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے لوک سبھا اور بعد میں 2017 کے اسمبلی انتخابات میں جاٹوں نے نہ صرف کھل کر بی جے پی کی حمایت کی بلکہ اس سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں۔ اس نے اپنا بیگ بھر لیا۔ جبکہ جاٹ برادری اس وقت تک چودھری چرن سنگھ اور بعد میں ان کے بیٹے اجیت سنگھ کی راشٹریہ لوک دل کی حمایت کرتی رہی ہے۔ اس لیے وہ کامیابی بی جے پی کے لیے بے مثال تھی اور اس کے لیڈروں نے بھی سمجھ لیا تھا کہ یوپی کے قلعے کو فتح کرنے کے لیے نہ صرف پوروانچل میں بلکہ مغربی یوپی میں بھی اس کی ضرورت ہے۔
لیکن پچھلے سال شروع ہونے والی کسان تحریک بی جے پی کے لیے سب سے بڑا سر درد بن گئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ پارٹی کے لیڈر ابھی تک یہاں کی جاٹ برادری کو راضی کرنے اور مطمئن کرنے میں اس حد تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ جو خبریں موصول ہو رہی ہیں، بی جے پی لیڈر اب بھی اتنے خوفزدہ ہیں کہ وہ مغربی یوپی کے کئی گاؤں میں انتخابی مہم چلانے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہے ہیں۔ اس بار بی جے پی کے لیے خطرہ یہ بھی ہے کہ آنجہانی اجیت سنگھ کے بیٹے جینت چودھری نے اپنی پارٹی آر ایل ڈی کو اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ کسان لیڈر راکیش ٹکیت بھلے ہی کھل کر نہ بتائیں، لیکن یہ یقینی ہے کہ وہ آر ایل ڈی امیدواروں کی جیت میں مدد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ بی جے پی کے حکمت کار اس حقیقت سے واقف نہ ہوں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کسانوں کے مسئلے کو نظرانداز کرتے ہوئے ہفتہ کو ڈورتوڈور مہم چلانے کے لیے سب سے حساس سیٹ یعنی کیرانہ تک پہنچنے والے امت شاہ نے نقل مکانی کے ان پرانے زخموں کو ہراکیا۔انھوں نے اپنی تقریر میں اس بات پر زور دیا۔’جو لوگ چند سال پہلے تک ہندو خاندانوں کو نقل مکانی پر مجبور کرتے تھے، وہ یوگی جی کی حکومت میں خود کو نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‘
لوگ بھلے بھول گئے ہوں، لیکن 2017 کے انتخابات میں بھی یہ مغربی یوپی بی جے پی کے لیے ’ہندوتوا‘ کی سب سے بڑی تجربہ گاہ بن گئی اور پارٹی کو اس میں کامیابی ملی، بلند شہر میں دی گئی شاندار تقریر کو دیکھیں تو سمجھ میں آئے گا کہ بی جے پی کسانوں کا غصہ توڑ اپنی پرانی پریوگ شالا سے ہی نکالا ہے۔ لیکن خطرہ یہ کہ اس بار ’ جاٹ لینڈ‘ میں تجربہ گاہ کہیں برعکس نہ پڑ جائے ۔؟
(بشکریہ: اے پی بی نیوزہندی)