لکھنؤ:(یوسف انصاری کی خاص رپورٹ)
اترپردیش اسمبلی انتخابات کے لیے کانگریس کی طرف سے جاری کی گئی 125 امیدواروں کی پہلی فہرست پر پارٹی کے اندر ہنگامہ کھڑا ہو گیا ہے۔ ہنگامہ اتنا زوردار ہے کہ پرینکا گاندھی واڈرا کا دفتر بھی رشوت ستانی کے الزامات سے گھرگیا ہے۔ پہلی فہرست میں اپنا نام غائب دیکھ کر کئی ٹکٹ کے دعویداروں نے کانگریس کے اعلیٰ لیڈروں پر پیسے دے کر ٹکٹ بانٹنے کا الزام لگایا ہے۔ ایسے لوگوں نے لکھنؤ سے لے کر دہلی تک باغی رویہ دکھا کر کانگریس کے اعلیٰ لیڈروں کو گھیرنے کی کوشش کی۔ اس سے کانگریس ہائی کمان کو جھٹکا لگا ہے۔
کانگریس میں ٹکٹوں کی تقسیم سے ناراض مغربی اتر پردیش سمیت کئی اضلاع کے 25 سے زیادہ ٹکٹ کے دعویداروں نے ہفتہ کو 24 اکبر روڈ پر واقع کانگریس ہیڈکوارٹر پر دھاوا بول دیا۔ یہاں وہ اترپردیش کی انچارج کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی سے مل کر اپنی بات رکھنا چاہتے تھے، لیکن پرینکا گاندھی کانگریس دفترنہیںپہنچیں۔ پرینکا نہیںملیں تویہ سب جمع ہو کر 15 رکاب گنج روڈ پر واقع کانگریس کے وار روم میں چلے گئے۔ وہاں بھی کانگریس کا کوئی سینئر لیڈر ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ در در بھٹکنے کے بعد دپندر ہڈا نے آخر کار ان لوگوں سے ملاقات کی اور ان کی حالت زار سنی۔ دپیندر سے ملاقات کرنے والے ایک ٹکٹ کے دعویدار نے بتایا کہ دپیندر ٹکٹوںکے بٹوارےمیں گڑبڑی کی بات قبول کرتے ہوئے دور کرنےکی یقین دہانی کرائی ہے۔
بجنور ضلع کی نجیب آباد اسمبلی سیٹ سے ٹکٹ کے خواہاں انیس وصال انصاری نے دپیندر ہڈا کو تحریری شکایت کی ہے۔ اس خط میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ضلع صدر اور ریاستی سکریٹریوں نے 10 لاکھ نقد اور پارٹی فنڈ کا 50 فیصد حصہ لینے کی شرط پر حاجی سلیم انصاری کو ٹکٹ دلایا ہے۔ ان کے مطابق سلیم انصاری نجیب آباد کےرہنےوالے ضرور ہیں لیکن گزشتہ 25-30سال سے وہ سورت میں رہتے ہیں ۔ وہیں کاروبار کرتےہیں اور انہیں ہزار ووٹ بھی نہیںملیں گے۔ انہوںنےدعویٰ کیا ہے کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے اسمبلی انتخابات لڑنے کی تیاری کر رہے تھے۔ پارٹی کی طرف سے بھیجے گئے مبصرین نے بھی انہیں ٹکٹ دینے کے حق میں رپورٹ دی ہے۔ لیکن ان کو نظر انداز کرتے ہوئے منی لانڈرنگ کے معاملے میں ایک ایسے شخص کو ٹکٹ دیا گیا جس کا علاقے سے کوئی تعلق نہیں۔
بجنور، مراد آباد، بدایوں، بلند شہر اور علی گڑھ کے کئی دیگر ٹکٹ کے عویدواروں جنہوں نے دپندر ہڈا سے ملاقات کی تھی، نے بھی ایسے ہی الزامات لگائے ہیں۔ یہ سب سننے کے بعد دپیندر ہڈا نے پرینکا گاندھی کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا اور ٹکٹوں میں موجود گڑبڑی کو دور کرنے کا یقین دلایا۔
کانگریس کی پہلی فہرست سامنے آنے کے بعد کانگریس کے اعلیٰ لیڈروں کو بڑے پیمانے پر گڑبڑ ی کی شکایتیں مل رہی ہیں، جس سے ہائی کمان حیران اور پریشان ہے۔
کچھ ٹکٹکے دعویداروں نے یہ بھی بتایا کہ انہیں پرینکا گاندھی کے دفتر سے بلایا گیا اور پارٹی فنڈ کے نام پر بھاری رقم مانگی گئی۔ لیکن وہ یہ مطالبہ پورا کرنے کے قابل نہیں تھے، اس لیے انہوں نے انکار کر دیا۔ جس کے نتیجے میں ان کا نام امیدواروں کی فہرست سے خارج کر دیا گیا۔
اتر پردیش مہیلا کانگریس کی نائب صدر پرینکا موریہ نے کانگریس میں ٹکٹوں کی تقسیم پر سنگین سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کے لوگوں پر ٹکٹ کے لیے رشوت مانگنے جیسے کئی سنگین الزامات لگائے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے کی وجہ سے انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ آپ کو بتا دیں کہ موریہ کانگریس کی ‘’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ مہم کی پوسٹر گرل بھی رہ چکی ہیں۔ موریہ نے جمعہ کو سوشل میڈیا اور انٹرویو کے ذریعہ اتر پردیش کی جنرل سکریٹری انچارج پرینکا گاندھی واڈرا کو براہ راست نشانہ بنایا۔ انہوں نے براہ راست پرینکا گاندھی کے دفتر پر ٹکٹ کے لیے رشوت مانگنے کا الزام لگایا۔ یہ پہلا موقع ہے جب کانگریس میں کسی ریاست کے انچارج جنرل سکریٹری کے دفتر پر براہ راست رشوت مانگنے کا الزام لگا ہے۔
پرینکا موریا نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میں افسردہ ہوں کیونکہ علاقے میں میری محنت کے بعد بھی مجھے یوپی اسمبلی انتخابات میں ٹکٹ نہیں ملا۔ میرا چہرہ ‘’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ مہم کے لیے استعمال کیا گیا۔ مجھے لینڈ لائن کال آئی اور فون کرنے والے نے میرے ٹکٹ کے لیے پیسے مانگے، لیکن میں نے انکار کر دیا۔ میں نے تمام کام مکمل کر لیے، لیکن نامزدگی سے پہلے طے کر کے ٹکٹ اس شخص کو دی گئی جو صرف ایک ماہ پہلے پارٹی جوائن کیا ہے۔ میں کانگریس لیڈر پرینکا گاندھی واڈرا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ یہ سب کچھ حقیقت میں ہو رہا ہے۔
موریہ نے پرینکا گاندھی کے سکریٹری سندیپ سنگھ پر رشوت مانگنے کا الزام لگایا۔ موریہ نے کہا، ’انہوں نے (کانگریس) مہم کے لیے میرا چہرہ، میرا نام اور میرے 10 لاکھ سوشل میڈیا فالوورز کا استعمال کیا ہے۔ لیکن جب آئندہ الیکشن میں ٹکٹ کی بات آئی تو کسی اور کو دے دی گئی۔ یہ ظلم ہے۔ یہ سب پہلے سے طے شدہ تھا۔ مجھے ٹکٹ نہیں ملا کیونکہ میں ایک او بی سی لڑکی ہوں اور پرینکا گاندھی کے سکریٹری سندیپ سنگھ کو رشوت نہیں دے سکتی تھی۔
دراصل، موریہ لکھنؤ کی سروجنی نگر سیٹ سے الیکشن لڑنا چاہتی تھی۔ پارٹی نے اس سیٹ پر رودر دمن سنگھ کو موقع دیا۔ پرینکا نے کہا کہ میں نے سیاست میں یہ سوچ کر قدم رکھا تھا کہ میں لوگوں کی مدد کر سکوں گی اور حالات بدل سکوں گی۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں جس نے سماجی کام کیا ہے۔ سب کہتے تھے کہ ٹکٹ مجھے ہی ملے گا۔ پارٹی نے کہا کہ مبصرین کی رپورٹ کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔ مبصرین نے میرا نام تجویز کیا لیکن مجھے ٹکٹ نہیں ملا۔ پرینکا موریا واحد ٹکٹ لینے والی نہیں ہیں جنہوں نے ٹکٹوں کے لیے رشوت مانگنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
مہیلا کانگریس کی ایک اور نائب صدر شیلا مشرا نے بھی ایسا ہی الزام لگایا ہے۔ جمعہ کو وہ ریاستی دفتر میں اپنی بہو مونیکا مشرا کے ساتھ گاندھی مجسمہ کے سامنے دھرنے پر بیٹھ گئیں اور احتجاج درج کرایا۔وہ انہیں اور ان کی بہو کو ٹکٹ نہ ملنے سے ناراض ہیں۔ شیلا کے مطابق وہ بخشی کا تالاب سے ٹکٹ مانگ رہی تھیں، پارٹی نے انہیں یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ لیکن، بعد میں وہاں سے کسی اور امیدوار کو ٹکٹ دینے کی بات کہی گئی اور یقین دلایا گیا کہ ان کی بہو کو بستی کی ہرایا سیٹ سے ٹکٹ دیا جائے گا۔ لیکن، وہاں سے بھی پارٹی نے ایک اور امیدوار کھڑا کردیا۔ شیلا نے الزام لگایا کہ ان سے پارٹی فنڈ میں 10 لاکھ روپے جمع کرنے کو کہا گیا تھا۔ اس کے پاس پیسے نہیں تھے اس لیے ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
کانگریس پارٹی ان الزامات پر کچھ کہنے کو تیار نہیں ہے۔ ریاستی کانگریس میڈیا ڈپارٹمنٹ کے نائب صدر پنکج سریواستو نے کہا کہ پارٹی ایسے الزامات کو جوابدہ نہیں سمجھتی۔ اس کے ساتھ ہی دہلی میں مرکزی سطح پر کئی رہنماؤں سے رد عمل طلب کیے گئے، لیکن انھوں نے یہ کہتے ہوئے کچھ بھی کہنے سے انکار کر دیا کہ یہ معاملہ پرینکا گاندھی واڈرا اور ان کے دفتر سے متعلق ہے، اس لیے وہ اس پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔ کانگریس کو خاموشی اختیار کرتے ہوئے الزامات سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے، لیکن وہ ان الزامات سے پارٹی اور اعلیٰ لیڈروں کو ہونے والی پریشانی کو نہیں روک سکتی۔