تحریر:یوسف انصاری
اسمبلی انتخابات میں شکست کے بعد سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کو اب قانون ساز کونسل کے انتخابات میں بھی زور کا جھٹکا لگا ہے۔ 36 سیٹوں پر ہوئے انتخابات میں ان کی پارٹی ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی۔ ایس پی امیدواروں میں سے زیادہ تر امیدوار 500 سے کم ووٹ پر ہی سمٹ گئے ۔ ایک دو امیدوار ہی ہزار ووٹوں کا ہندسہ پار کر پائے ۔ سب سے شرمناک بات یہ رہی کہ مسلم اکثریت علاقوں کے منتخب نمائندوں کا ووٹ بھی بی جے پی کو چلا گیا ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے وجود کے لیے بڑے خطرے کی علامت ہے۔
ایس پی کا صفایا
بتا دیں کہ 36 سیٹوں پر ہوئے قانون ساز کونسل کے الیکشن میں بی جے پی نے پہلے ہی 9 سیٹیں بلامقابلہ جیت لی تھیں۔ باقی 27 سیٹوں میں سے بی جے پی نے 24 سیٹیں جیتی ہیں۔ ایس پی کا کھاتہ بھی نہیں کھلا۔ راجہ بھیا کی نئی پارٹی جنستا دل لوک تانترک نے پرتاپ گڑھ میں ایک سیٹ جیت لی ہے۔ وارانسی اور اعظم گڑھ میں دو سیٹوں پر آزاد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ اس طرح اکھلیش یادو کی کارکردگی راجہ بھیا کی پارٹی سے بھی بدتر رہی ہے۔
قانون ساز کونسل کے انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ایس پی کے اندر یہ چرچا ہے کہ اکھلیش یادو نے انتخابات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اگر وہ خود میدان میں آ کر جدوجہد کرتے تو شاید پارٹی کچھ سیٹیں جیت کر اپنا اور پارٹی کا وقار بچانے میں کامیاب ہو جاتی۔
پہلے بولتی تھی ایس پی کی طوطی
اس الیکشن میں سماج وادی پارٹی نے 36 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ دو سیٹوں پر اس کی اتحادی راشٹریہ لوک دل کے امیدوار میدان میں تھے۔ چھ سیٹوں پر ایس پی اور ایک سیٹ پر آر ایل ڈی کے امیدواروں نے اپنے نام واپس لے کر بی جے پی کو واک اوور دے دیا۔ دو سیٹوں پر ایس پی امیدواروں کے پرچہ نامزدگیتکنیکی وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیے گئے۔ اس طرح بی جے پی انتخابات سے پہلے ہی بلا مقابلہ 9 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔
مسلم اکثریتی علاقوں میں بی جے پی کو فائدہ
مغربی اتر پردیش میں، سہارنپور-مظفر نگر، میرٹھ-غازی آباد اور بجنور-مراد آباد جیسے مسلم اکثریتی علاقوں کی قانون ساز کونسل کی نشستوں پر سماج وادی پارٹی کی پوزیشن کافی مضبوط سمجھی جاتی تھی، لیکن ان علاقوں سے سماج وادی پارٹی کے امیدواروں نے اکھلیش کو بری طرح مایوس کیا ہے۔
میرٹھ-غازی آباد سیٹ سے جیتنے والے بی جے پی کے ایم ایل سی دھرمیندر بھاردواج نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی سیٹ پر 1000 سے زیادہ منتخب مسلم نمائندے ہیں۔ اسمبلی انتخابات میں جس طرح مسلمانوں نے یکطرفہ طور پر سماج وادی پارٹی کے حق میں ووٹ دیاتھا، یہ تمام ووٹ سماج وادی پارٹی کو جانا چاہیے تھا۔ لیکن اسے یہاں سے صرف 350 ووٹ ملے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ منتخب نمائندوں نے بھی بی جے پی کو اپنی پہلی پسند بنا لیا ہے۔دھرمیندر بھاردواج کو 3,708 ووٹ ملے جبکہ سنیل روہتا کو اتحاد سے 227 ووٹوں سے مطمئن ہونا پڑا۔ دھرمیندر بھاردواج کا دعویٰ ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں مسلم سماج کا ایک بڑا حصہ بی جے پی کو ووٹ دے گا۔
مسلم نمائندوں کو ترغیب دینے میں ناکام
ایسا ہی دعویٰ بی جے پی کے ایم ایل سی ستیہ پال سینی نے کیا ہے، جنہوں نے بجنور-مرادآباد سیٹ سے کامیابی حاصل کی۔ ان کے مطابق بجنور اور مرادآباد کی ضلع پنچایتوں میں مسلم نمائندوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ مسلم سماج کے منتخب نمائندوں نے کھل کر بی جے پی کی حمایت کی ہے۔
اس سیٹ سے سماج وادی پارٹی کے امیدوار اجے ملک تھے۔ انہوں نے الیکشن جیتنے کی پوری کوشش کی۔ انہیں مقابلہ دلانے کے لیے ایس پی کے ریاستی صدر نریش اتم اور بجنور ضلع میں جیتنے والے ایس پی کے چار ایم ایل اے کے ساتھ ساتھ ضلع کی بلدیات اور نگر پنچایتوں کے صدور نے پوری طاقت جھونک دی تھی۔ لیکن وہ صرف 903 ووٹ حاصل کر سکے۔ وہیں بی جے پی امیدوار نے 6,843 ووٹ حاصل کیے اور انہیں 5,940 ووٹوں کے بڑے فرق سے شکست دی۔
ایس پی -آر ایل ڈی اتحاد پھر ناکام
مظفر نگر- سہارنپور قانون ساز کونسل کے انتخابات میں بی جے پی نے پہلی بار کامیابی حاصل کی ہے۔ یہاں بی جے پی امیدوار وندنا ورما کو 3843 ووٹ ملے۔ انہوں نے ایس پی امیدوار عارف کو 3001 ووٹوں سے شکست دی۔ عارف کو 842 ووٹ ملے۔ سماج وادی پارٹی کے امیدوار کو توقع سے کم ووٹ ملے۔ انتخابی نتائج بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ آر ایل ڈی کے ساتھ اتحاد سے سماج وادی پارٹی کو کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اسمبلی انتخابات کے بعد یہ اتحاد قانون ساز کونسل کے انتخابات میں بی جے پی کا بال بھی بیکا نہیں کر سکا۔
اعظم گڑھ میں ضمانت ضبط
پوروانچل میں اعظم گڑھ جیسے اپنے مضبوط گڑھ میں ایس پی امیدوار اپنی ضمانت بھی نہیں بچا سکے۔ وکرانت سنگھ رشو نے اعظم گڑھ میں آزاد امیدوار کے طور پر بی جے پی کے ارون کانت یادو کو شکست دی۔ سماج وادی پارٹی کے امیدوار راکیش کمار یادو گڈو 356 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ ان کی ضمانت بھی نہ بچ سکی۔ یہ صورت حال ہے جب سماج وادی پارٹی نے گزشتہ ماہ ہوئے اسمبلی انتخابات میں ضلع کی تمام 10 اسمبلی سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔
اعظم گڑھ میں ضلع پنچایت کے صدر کا تعلق بھی سماج وادی پارٹی سے ہے۔ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے بعد اکھلیش یادو نے یہاں کی لوک سبھا سیٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس سے پہلے 2004 میں ملائم سنگھ یادو نے یہاں سے لوک سبھا الیکشن جیتا تھا۔ قانون ساز کونسل کے انتخاب میں ایس پی کی بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ اب یہاں اس کی گرفت ڈھیلی ہوتی جارہی ہے۔
اسمبلی انتخابات کے تقریباً ایک ماہ بعد ہونے والے قانون ساز کونسل کے انتخابات میں سماج وادی پارٹی کی بدقسمتی کو دیکھتے ہوئے ریاست کی سیاست میں اکھلیش کا آگے کا راستہ اور بھی مشکل نظر آرہا ہے۔ جہاں بی جے پی 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر اپنی پوزیشن مضبوط کر رہی ہے، وہیں سماج وادی پارٹی ابھی تک شکست کی مایوسی سے باہر نہیں آسکی ہے۔
اکھلیش یادو نے اعظم گڑھ کی لوک سبھا سیٹ سے استعفیٰ دے کر بھلے ہی اسمبلی میں پانچ سال یوگی سرکار کے خلاف جدوجہد کرنے کااعلان کردیاہو لیکن زمین پر وہ جد وجہد کرتے ہوئے نہیں نظر آرہے ہیں ۔
(تصویر:بشکریہستیہ ہندی )