لکھنؤ :
یوپی انتخابات میں سب سے زیادہ بحث رام مندر کی ہے ، ایسے میں آج تک کے خاص سیشن ’ایودھیا بنے گا ویٹیکن سٹی ؟‘ میں بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی ) لیڈر ونے کٹیار رام جنم بھومی ٹرسٹ کے مہنت ستیندر داس اور کانگریس لیڈر آچاریہ پرمود کرشنم نے رام مندر اور ایودھیا پر بحث کی ۔ اس دوران بی جے پی لیڈر ونے کٹیار نے ایک بڑا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ 6 دسمبر 1992 کو اس وقت کے وزیر اعظم پی وی نرسمہا راؤ کا فون آیا تھا اور مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا اب تو کام ہونے والا ہوگا۔ ونے کٹیار نے کہا کہ کام تو نرسمہاراؤ نے کیا ، لیکن حکومتیں بھی ہماری چار کھاگئے۔
ونے کٹیار نے کہا ، ‘6 دسمبر 1992 کو ڈھانچہ کب ، کیسے نیچے چلا گیا، کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ اس کی ایک ایک اینٹ لوگ اکھاڑ کر لے کر چلے گئے۔ عقیدت کے طور پر لے کر گئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اس کے بعد ہماری چار حکومتیں قربان ہوگئیں۔ کانگریس کو اچھا ہی نہیں لگا اور چار – چار سرکار ہماری چلی گئیں، لیکن ہمیں سرکار جانے کی فکر نہیں تھی ۔
ونئے کٹیار نے آگے کہاکہ کانگریس کے اندر بھی ایک دو لوگ ایسے تھے جو چاہتے تھے کہ مندر بنے، لیکن زیادہ تر لوگ رکاوٹ ڈال رہے تھے ۔ کٹیار نے کہاکہ نرسمہاراؤ جب ملک کے وزیر اعظم تھے، ان کا میں ہمیشہ شکریہ ادا کرتاہوں اورکرتا رہوں گا۔نرسمہا راؤ نے دو دھاری تلوار چلائی، وقت دیا ڈھانچہ گرانے کا،لیکن ہماری چار حکومتیں قربان کردیں۔
ونے کٹیار نے کہاکہ ڈھانچہ گرتے وقت انہوں نے ( نرسمہاراؤ) کسی سے بات نہیں کی، لیکن صرف میرے پاس فون آیا تھا اور انہوں نے (نرسمہاراؤ) کہاکہ اب تو کام ہونے والا ہوگا۔ ہم نے کہاکہ مجھے معلوم نہیں ہے، لیکن جتنا وقت لگے گا اتنا ہو جائےگا۔ یہ کہا نہیں جاسکتا ہے ۔ کام تو نرسمہاراؤ نے کیا ،لیکن سرکار بھی ہماری کھاگئے۔
ونے کٹیار نے کہا ، ‘نرسمہا راؤ نے دوہرا کام کیا ، ہم کو کوئی اعتراض نہیں ہے ، لیکن ہماری جدو جہد بڑھ گئی۔ خرچ بڑھ گئے۔ عوامی مہم چلانی پڑی۔ یہ آسان کام نہیں تھا، ایودھیا میں مسلم سماج نے مخالفت نہیں کی تھی، سب سے زیادہ مخالفت ہندو کرتے تھے، کانگریس تو اس کی جڑ میں تھی۔ بی جے پی لیڈر ونے کٹیار نے کہا کہ خیر اب کانگریس اچھا بول رہی ہے ، سب اب مل گئے ہیں، اچھا ہے ،ایودھیا اچھاہوگا،جیسا کہ ہر کوئی ایودھیا کاتصور کرتا ہے ۔ اسی طرح ایودھیا کو دوبارہ سے زندہ کرنے کی تمام کوششیں جاری ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں۔