جوناتھن بیل
طالبان جس برق رفتاری سے افغانستان میں پیش قدمی کر رہے ہیں اس سے بظاہر کئی لوگ حیرت کے شکار ہو گئے ہیں۔ صوبائی دارالحکومت ایک کے بعد ایک حکومت کے ہاتھوں سے ریت کی طرح پھسل رہے ہیں اور طالبان کے کنٹرول میں جا رہے ہیں۔’
اس وقت طالبان جنگجو مکمل طور پر طاقتور نظر آ رہے ہیں اور افغان حکومت کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔
رواں ہفتے امریکی انٹیلیجنس کی لیک ہونے والی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ کابل آئندہ چند ہفتوں میں جنگجوؤں کے حملے کا نشانہ بن سکتا ہے اور کابل حکومت 90 دن کے اندر گِر سکتی ہے۔
تو یہ سب اتنا جلدی کیسے ہوا۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں بشمول برطانیہ نے 20 سال تک افغان سکیورٹی فورسز کو تربیت اور ساز و سامان فراہم کیا ہے۔ ماضی میں لاتعداد امریکی اور برطانوی جرنیلوں نے طاقتور اور باصلاحیت افغان فوج تیار کرنے کا دعویٰ کیا۔ آج یہ سب وعدے کھوکھلے نظر آ رہے ہیں۔
طالبان کی قوت
افغان حکومت کے پاس جتنی بڑی افرادی قوت ہے، اسے بالادست تو ہونا چاہیے۔ کاغذی طور پر افغان سکیورٹی فورسز بشمول افغان فوج، فضائیہ اور پولیس میں تین لاکھ سے زیادہ اہلکار ہیں۔ مگر درحقیقت یہ ملک ہمیشہ ہی فورسز میں بھرتیوں کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
افغان فوج اور پولیس میں بے پناہ جانی نقصان، ہتھیار ڈال دینا اور کرپشن عام ہیں اور کئی بدعنوان کمانڈر ایسے سپاہیوں کی تنخواہیں بھی وصول کر رہے ہیں جو درحقیقت کبھی فورسز میں بھرتی ہی نہیں کیے گئے۔
امریکی کانگریس کے لیے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں سپیشل انسپکٹر جنرل برائے افغانستان نے ’کرپشن کے تباہ کن اثرات اور فوج کی حقیقی افرادی قوت کے متعلق ڈیٹا پر سنگین خدشات‘ کا اظہار کیا ہے۔
رائل یونائٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے جیک واٹلنگ کہتے ہیں کہ خود افغان فوج کو بھی کبھی حقیقی طور پر معلوم نہیں رہا ہے کہ اُن کے پاس کتنے سپاہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ سامان کی دیکھ بھال اور مورال برقرار رکھنے کے مسائل بھی اپنی جگہ ہیں۔ سپاہیوں کو اکثر ایسے علاقوں میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں اُن کے کوئی قبائلی یا خاندانی تعلقات نہیں ہوتے۔ یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ کیوں کچھ فوجی لڑے بغیر ہی فوراً ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ مشکل کام طالبان کی قوت کا اندازہ لگانا ہے۔
امریکہ کے ’کومبیٹنگ ٹیررازم سینٹر ویسٹ پوائنٹ‘ کے مطابق طالبان کے پاس کم از کم 60 ہزار جنگجو موجود ہیں۔ اور اگر اس میں دیگر عسکریت پسند گروہوں اور حامیوں کو ملایا جائے تو یہ تعداد دو لاکھ سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
مگر پشتو بولنے والے سابق برطانوی فوجی عہدیدار ڈاکٹر مائیک مارٹن نے اپنی کتاب ’این انٹیمیٹ وار‘ میں طالبان کو ایک یکتا گروہ تصور کرنے کے خطرات سے خبردار کیا ہے۔
اس کے بجائے اُن کا مؤقف ہے کہ طالبان ایک دوسرے سے منسلک آزاد گروہوں کا ایک اتحاد ہے اور ممکنہ طور پر یہ عارضی اتحاد ہی ہے۔
اُن کے مطابق افغان حکومت بھی مقامی دھڑوں کے مفادات کی شکار ہے۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی تاریخ سے یہ واضح ہے کہ کیسے خاندان، قبائل اور یہاں تک کہ حکومتی عہدیدار بھی اپنی بقا کی خاطر وفاداریاں بدلتے رہے ہیں۔
ہتھیاروں تک رسائی
اس معاملے میں بھی افغان حکومت کے پاس فنڈنگ اور ہتھیاروں کے حوالے سے برتری ہونی چاہیے۔ اسے سپاہیوں کی تنخواہوں اور ساز و سامان کی مد میں اربوں ڈالر ملے ہیں جن میں سے اکثریتی فنڈنگ امریکہ نے کی ہے۔ جولائی 2021 کی رپورٹ میں سپیشل انسپکٹر برائے افغانستان نے کہا کہ افغانستان کی سلامتی پر اب تک 88 ارب ڈالر خرچ کیے جا چکے ہیں۔ مگر اس رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’مگر یہ سوال کہ کیا رقم درست طور پر خرچ ہوئی، اس کا جواب جنگ سے نتیجے سے ہی مل سکے گا۔‘
افغانستان ایئر فورس کو اس جنگ میں اپنی حکومت کو برتری دلوانی چاہیے مگر یہ اپنے 211 طیاروں کی دیکھ بھال اور ان کے لیے عملے کو برقرار رکھنے میں مشکلات کی شکار ہے۔ یہ مسئلہ طالبان کی جانب سے پائلٹس کو دانستہ طور پر نشانہ بنانے کی وجہ سے مزید بگاڑ کا شکار ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ افغان فضائیہ میدانِ جنگ میں موجود کمانڈرز کے مطالبات پورے کرنے میں بھی ناکام ہے۔ اس لیے حال ہی میں طالبان کے زیرِ حملہ شہروں مثلاً لشکر گاہ میں امریکی فضائیہ کو بھی کارروائی کرنی پڑی ہے۔ یہ اب بھی واضح نہیں ہے کہ امریکہ کتنے عرصے تک یہ مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
طالبان نے ویسے تو بڑی حد تک منشیات کی تجارت سے ملنے والے محصولات پر بھروسہ کیا ہے مگر اُنھیں مبینہ طور پر ملک کے باہر سے بھی مدد ملتی رہی ہے جن میں سرِفہرست نام پاکستان کا ہے۔ حال ہی میں طالبان نے افغان سکیورٹی فورسز سے ہتھیار اور ساز و سامان چھینا ہے جس میں ہموی بکتر بند گاڑیاں، نائٹ وژن عینکیں، مشین گنیں، مارٹر گولے اور توپیں شامل ہیں۔
سوچیں کہ ہلاکت خیز آئی ای ڈی بموں کا امریکی اور برطانوی افواج پر کیا اثر رہا ہے۔ ایسے بم، مقامی معلومات اور میدانِ جنگ کا فہم ہی اُن کا سب سے بڑا فائدہ رہا ہے۔
شمال اور مغرب پر توجہ
مگر اس بے ہنگم نوعیت کے باوجود کئی لوگوں کو لگتا ہے کہ طالبان کی حالیہ پیش قدمی کے پیچھے ایک مربوط حکمتِ عملی موجود رہی ہے۔ بین بیری سابق برطانوی بریگیڈیئر ہیں اور اب انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے سینیئر فیلو، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ طالبان کو موقع پرستی سے فائدہ حاصل ہوا ہے مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ’اگر کسی مہم کی منصوبہ بندی کرنی ہو تو مجھے اس سے بہتر منصوبہ بنانے میں دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
وہ طالبان کی جانب سے اپنے روایتی جنوبی گڑھ کے بجائے شمال اور مغرب پر توجہ کی جانب نشاندہی کرتے ہیں جہاں ایک کے بعد ایک علاقائی دارالخلافہ اُن کے قبضے میں آتا جا رہا ہے۔
طالبان نے اہم سرحدی کراسنگز اور چیک پوائنٹس پر قبضہ کر لیا ہے جس کی وجہ سے پہلے سے مالی مسائل کی شکار حکومت سے کسٹمز محصولات بھی طالبان کے ہاتھوں میں جانے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ اُنھوں نے اہم عہدیداران، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگز کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ گذشتہ 20 برس میں حاصل ہونے والے معمولی فائدوں کو تہس نہس کرتے جا رہے ہیں۔ اور جہاں تک افغان حکومت کی حکمتِ عملی کی بات ہے تو اس کے خد و خال اور بھی زیادہ مبہم ہیں۔
طالبان کے ہاتھوں میں جانے والے تمام علاقے واپس حاصل کرنے کی وعدے انتہائی کھوکھلے محسوس ہو رہے ہیں۔ بین بیری کہتے ہیں کہ بظاہر بڑے شہروں کو کنٹرول میں رکھنے کا منصوبہ موجود ہے۔ افغان کمانڈوز پہلے ہی ہلمند کے شہر لشکرگاہ کو حکومتی کنٹرول میں رکھنے کے لیے تعینات کیے جا چکے ہیں۔
مگر یہ سب کتنا عرصہ چل سکتا ہے؟
افغان سپیشل فورسز تعداد میں نسبتاً کم ہیں۔ یہ کوئی 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہیں اور پہلے ہی ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ طالبان بظاہر پروپیگنڈا اور بیانیے کی جنگ بھی جیت رہے ہیں۔ بیری کہتے ہیں کہ میدانِ جنگ میں پے در پے کامیابیوں کے بعد اُن کے مورال میں مزید اضافہ ہوا ہے اور اُن میں اتحاد کا عنصر پیدا ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ افغان حکومت بھی پسپائی کی شکار نظر آ رہی ہے اور اپنے جرنیلوں کی سرزنش کر رہی ہے یا اُنھیں برطرف کر رہی ہے۔
نتیجہ کیا نکلے گا؟
افغان حکومت کے لیے یہ پورا منظر نامہ نہایت تاریک ہے۔ مگر جیک واٹلنگ کہتے ہیں کہ بھلے ہی افغان فوج کے لیے صورتحال نہایت مایوس کُن ہے مگر ’سیاست اب بھی اس صورتحال کو بچا سکتی ہے۔‘ اگر حکومت مقامی قبائلی رہنماؤں کا اعتماد حاصل کر لے تو اب بھی کوئی راستہ نکل سکتا ہے۔
مائیک مارٹن بھی اسی خیال کے حامل ہیں اور وہ مزارِ شریف میں سابق جنگجو سردار عبدالرشید دوستم کو ایک اہم مہرہ قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ پہلے ہی وہاں معاہدے کر رہے ہیں۔ گرمیوں کا موسمِ جنگ جلد ہی ختم ہونے والا ہے اور افغان موسمِ سرما میں زمینی فورسز کے لیے نقل و حرکت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ اب بھی ممکن ہے کہ سال کے اختتام تک سمجھوتے کی کوئی راہ نکل آئے اور افغان حکومت کے پاس کابل اور چند بڑے شہر رہ جائیں۔ اور اگر طالبان میں پھوٹ پڑ جائے تو یہ لہر مکمل طور پر حکومت کے حق میں بھی جا سکتی ہے۔ مگر فی الوقت بظاہر یہی لگتا ہے کہ افغانستان میں تحفظ اور استحکام قائم کرنے کی نیٹو اور امریکہ کی کوششیں بھی سوویت یونین کی طرح ناکام ہو گئی ہیں۔
(بشکریہ : بی سی سی )