ظفر گورکھپوری کی یہ نظم بظاہر کتنی آسان ،سادہ زبان میں ہے مگر سیدھی دل میں اتر جاتی ہے ،یہ سماجی کروٹوں،بدلتی اقدار اور تہذیبی شکستگی کا آئینہ ہے،اب کہاں ماں کی لوریاں ہیں ان کی جگہ موبائل کی کارٹون کہانی ،گانوں نے لے لی،نانی کی کہانیاں اور دادا کا شفقت بھرا سایہ بوجھ ہوگیا ہے،یہ نظم تین نسلوں کے بدلتے رحجانات کا بیانیہ ہے۔
کبھی کبھی سیاسی ہنگامہ آرائیوں اکھاڑ پچھاڑ سے ،مناظرے بازیوں سے دور ،آنکھ بند کرکے ذہن کے پردے پر یادوں کی فلم چلاکر میٹھے میٹھے درد کو محسوس کریں اور سادہ سی نظم میں تہذیبی قدروں کی گھٹی گھٹی کراہوں کو سنیں۔