تحریر:پریم کمار
29 جنوری 2022 کو باپو کے قتل کے 75 ویں یوم شہادت کے موقع پر دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک، ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے اپنی تقریر سے سب کو حیران کر دیا تھا۔ ’یہ گرمی جو ابھی کیرانہ اورمظفر نگرمیں کچھ جگہ دکھائی دے رہی ہے نا ، یہ سب شانت ہو جائے گی۔ میں مئی اورجون گرمی میں بھی ’شملہ‘ بنا دیتا ہوں…۔‘
پانچ دن بعدہی 3 فروری 2020 کو میرٹھ کے اجلاس سے دہلی واپس آتے ہوئے، اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اسد الدین اویسی پر پلکھوا-چھجارسی ٹول پلازہ پر حملہ کیا گیا۔ 6 ڈگری درجہ حرارت میں اترپردیش کی سیاست گرم ہوگئی۔ سردیوں میں شملہ کا درجہ حرارت مئی جون کے گرمیوں کا درجہ حرارت بن گیا۔
تب گوڈسے -آپٹے، اب سچن -شبھم
30 جنوری1948کو سردیوں کے موسم میں گوڈسے-آپٹے نے جس طرح دارالحکومت دہلی اور پھر ملک کے درجہ حرارت کو گرم کردیا تھا،ٹھیک ویسی ہی کوشش سچن – شبھم نے پلکھوا- چھجارسی میںکر کے دکھائی۔ 1948 میں بھی 20 جنوری کو ایک کوشش ناکام ہوئی تھی، باپو بچ گئے تھے۔
مرکزی حکومت چوکنا ہے۔ اسد الدین اویسی کو زیڈ کیٹیگری کی سیکورٹی دینے کااعلان کرچکی ہے، مگر اسد الدین اویسی بھی اس بات پر بضد ہیں کہ وہ بغیر سیکورٹی کے ہی رہیں گے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ اگر دینا ہے تو اے کلاس کا شہری بنا دیں۔ یہ کوئی مطالبہ نہیں، شکایت بھی نہیں، بلکہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے ہندوستانی جمہوریت کی دہلیز پر گھنٹا بجانے جیسا قدم ہے۔ اویسی گاندھی کی طرح سیکورٹی لینے سے انکار کر رہے ہیں۔
قارئین کو یہ شکایت ہو سکتی ہے کہ اسد الدین اویسی کا موازنہ مہاتما گاندھی سے کیوں کیا جا رہا ہے۔ لیکن، یہ موازنہ دو شخصیات کا نہیں بلکہ ایک جیسے حالات کا ہے۔ یہ بحث الگ ہے اور یہاں اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔
کس نے اکسایا، کس نے بنائے پستول بردار ’اند بھکت‘ ؟
وہ دن بھی 27 جنوری 2020 تھا – دہلی میں کڑکڑاتی ٹھنڈتھی۔ دہلی اسمبلی انتخابات لڑا جا رہا تھا۔ مرکزی وزیر مملکت انوراگ ٹھاکر نے رٹھالہ میں بی جے پی امیدوار منیش چودھری کے لیے ووٹ مانگتے ہوئے نعرہ لگایاتھا ۔’’ دیش کے غداروں کو …. گولی مارو (غیرمہذہب الفاظ) کو…‘‘ ۔ دہلی کا سیاسی درجہ حرارت ہی نہیں پورے ملک کا پارہ اچانک چڑھ گیا تھا۔ مئی- جون کے موسم گرما جیسا درجہ حرارت سیاسی محسوس ہونے لگا تھا۔
27 جنوری 2020 کو رٹھالہ میں ہی مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی نفرت انگیز بیان دیا تھا- ’کمل کا بٹن اتنی زور سے دبانا کہ ووٹ کمل کو پڑےاور کرنٹ شاہین باغ میںلگے۔‘‘ دو مرکزی وزراء کے یہ بیانات اس بات کی مثال ہیں کہ کس طرح حکومت میں بیٹھے ذمہ دار وزراء خود ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ظاہر ہے کوئی اثر تو ہونا ہی تھا۔
تین دن بعد 30 جنوری 2020 کوہی ’غداروں‘ کو گولی مارنے شاہین باغ پہنچ گیا تھا گوپال شرما عرف رام بھکت گوپال ۔ گولیاں چلیں۔ پولیس کے سامنے چلیں۔ اسے روکنے کے لیے آنے والا طالب علم بھی زخمی ہو گیا۔ لیکن ’غداروں‘ نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ جواب میں کوئی گولی نہیں چلائی گئی۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوآنچ تک نہیں آئی ، لیکن یہ ایک عارضی چیز تھی۔
دراصل ملک کی فضاؤں میں زہر گھولنے لگا تھا۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر حملوں کے واقعات رونما ہونے لگے تھے۔ 26 فروری 2020 کو دہلی کے موج پور علاقے میں شاہ رخ نامی شخص نے جس طرح پولیس پر پستول تانی ،وہ ایک مثال رہے گا۔
شاہین باغ گولی کانڈ 2 سال بعد دہرائی گئی
دو سال بعد، 3 فروری کوشاہین باغ کا واقعہ پلکھوا-چھجارسی چیک ناکے پر دہرایا گیا ہے۔ اس بار نشانہ رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی ہیں۔ جبکہ حملہ آور شاہین باغ واقعہ کے ملزم گوپال شرما کا پیروکار ہے۔ تب حملہ آور گوپال شرما کو ’رام بھکت‘ کہنے پر فخر محسوس ہوا۔ اب اس حملے کا ملزم، سچن ایک نوجوان ہے جو فیس بک ’پر ‘دیش بھکت سچن ہندو‘ کے نام سے ایک پیج چلا کر خود پر فخر کر نے والا نوجوان ہے ۔ دوسرا ملزم شبھم اس کا ساتھی ہے۔
پولیس نے کہا ہے کہ حملہ آور اسد الدین اویسی کے مبینہ ہندو مخالف بیانات کی وجہ سے ان سے ناراض تھے۔ یہ بیان اویسی نے 2014-16 کے دوران دیا تھا۔ یوپی پولیس کے لیے حملے کی وجہ تلاش کرنا کتنا آسان ہے! مہاتما گاندھی کو گولی مارنا بھی کئی لوگ ایسا ہی کہہ کرصحیح ٹھہراتے ہیںکہ ناتھ رام گوڈسے -آپٹے گاندھی کی تقریر سے نارض تھے۔
گاڈ فادر کے بغیر پیدا نہیں ہوتے…
جو لوگ گوڈسے- آپٹے کی حمایت کر رہے ہیں اور گاندھی کے قتل کو جائز قرار دے رہے ہیں، کیا وہی جماعت سچن شبھم کو پیدا نہیں کر رہی ہے؟ تب ہندو مہاسبھا، آر ایس ایس کے لوگ مہاتما گاندھی کے خلاف زہر اگل رہے تھے۔ آج بھی وہی زبان، وہی روایت مسلط نہیں ہو رہی۔؟ نفرت میں گولیاں چلانے والوں کے گاڈ فادر تب بھی تھے، آج بھی ہیں۔ کیا گوڈسے- آپٹے گاڈفادرکے بغیر پیدا ہو سکتے ہیں؟ یا سچن-شبھم جنم لے سکتے ہیں؟
اگر انوراگ ٹھاکر کے خلاف کارروائی ہوتی ، امت شاہ کے خلاف کارروائی ہوتی، یوگی آدتیہ ناتھ پرقانون کا شکنجہ کسا گیا ہوتایا اس سے پہلے شاہین باغ کےلوگوںسے ہندوؤں کی بہو- بیٹیوں کی عزت کو خطرے میں بتانےوالے بی جے پی لیڈر پر کارروائی کی گئی ہوتی توآج صورت حال مختلف ہوسکتے تھے۔
یہ سلسلہ آگے بھی بڑھا۔برطانوی راج کا قانون بدلنے کی مہم چلانے والے بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کی بلائی گئی میٹنگ میں ایک مخصوص کمیونٹی کو کاٹے جانے کا کھلااعلان ہو یا پھر ہری دوار سے لے رائے پور اوربریلی تک کی دھرم سنسد یا مذہبی مجلس ہو۔ یہ مذکورہ واقعات کا آمرانہ سلسلہ ہے ۔
مظفر نگر فسادات کے زخم کو کریدا جارہاہے ۔ بی جے پی لیڈر مین اسٹریم میڈیا کھلےعام کہہ رہے ہیں کہ جاٹ بھول نہیں سکتے مظفر نگر کا فساد۔ ایسے لوگوں سے پوچھاجائے کہ یاد رکھ کرکیا کریںجاٹ؟ کیا بدلا لیں؟ اورکیا اس لئے اسدالدین اویسی پر حملے کا واقعہ نہیں ہو رہاہے؟
اسد الدین اویسی نے لوک سبھا میں بالکل درست سوال کیا ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ حملہ آور نوجوان، گرم خون والے لوگ ہیں جنہیں کسی کو ٹھنڈا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اصل مجرم وہ ہیں جو چلچلاتی گرمی میں بھی ’شملہ‘ بنانے اور گرم خون کو ٹھنڈا کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ کیا ہمارا قانون اس سلسلے کو روکنے میں کامیاب ہوگا؟
(بشکریہ: ستیہ ہندی )