عبدالسلام عاصم
فلسطین کے مظلومین پر کیا گزری اس کا دنیا نے زائد ازایک ہفتے تک ننگی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ اسرائیلی بمباری اور فوجی کارروائی کے علاوہ حماس کی راکٹ باری پر لوگوں کی الگ الگ آرا ہو سکتی ہیں لیکن اس سچ سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مفروضہ دشمنوں کی انتہائی خونریز لڑائی میں عام فلسطینی بہت بڑی تعداد میں ناکردہ گناہی کی سزا کاٹنے پر مجبور کئے گئے۔ اسرائیل میں بھی کچھ عام لوگوں کو راکٹ حملوں میں جانیں گنوانا پڑیں۔
اس پورے معاملے کو کوئی کسی بھی نظر سے دیکھے جان و مال کی غیر ضروری تباہی کی اُسے مذمت کرنا ہی پڑے گی۔ انسانی زندگی کے تقدس کی پامالی کی دنیا کی کسی تہذیب میں اجازت نہیں خواہ کوئی ایسی حرکتوں کو جائز ٹھہرانے کاکچھ بھی جواز پیش کرے۔ ناامیدی کفر ہے اس لئے امید کی جانی چاہئے کہ جو غلطیاں پوشیدہ نہیں اُن کے ازالے کی ہر طرف سے کوشش کی جائے گی۔ لیکن جس ظلم اور زیادتی تک عام دنیا کی نظروں کی بے روک رسائی نہیں، اُن کا حساب و کتاب کون کرے گا!!
چین میں سنکیانگ کے ایغور اقلیتوں کے ساتھ بھی مبینہ طور پردہائیوں سے ظلم اور غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔ اطلاعاتی تیکنالوجی عام ہونے سے پہلے بھی خبر و نظر کی دنیا کی تما تر وسعتیں کم نہیں تھیں۔ باوجودیکہ بہت چھن کر خبریں آتی تھیں۔ آج جب ہم سوشل میڈیا کی یلغار کے عہد میں جی رہے ہیں، تب بھی وہاں آہنی پردے کے پیچھے کی ویسی تصویریں صاف طور پرسامنے نہیں آتیں جیسی فلسطینی تصویریں دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔
تمام تر پردہ پوشی کے باوجود سنکیانگ میں نظریاتی فرق کی وجہ سے غیر انسانی زیادتیاں اب دنیا سے پہلے کی طرح پوشیدہ نہیں۔ چین کی مستقل کوششوں کے باوجود حقائق تک دنیا کی رسائی ہو گئی ہے، جس کا زمانہ نوٹس بھی لے رہا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ، جرمنی اور برطانیہ نے ابھی حال ہی میں اقوام متحدہ میں اس حوالے سے چین پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ اس بیچ ایک نئی تحقیق میں یہ پتہ چلا ہے کہ سنکیانگ کے علاقے میں چین نے کریک ڈاون کر کے انتہا پسندی کو فروغ دینے کے سنگین نوعیت کے الزام میں کوئی 630 مسلم مذہبی شخصیات کو حراست میں لے رکھا ہے یا قید ی بنا دیا ہے جن میں مساجد کے امام بھی شامل ہیں۔
میڈیا کے مطابق چین کی حکومت سنکیانگ میں کیمپوں کے اندرانسانیت سوز مظالم کے علاوہ ایغور اور دیگر اقلیتوں کی نسل کشی کا طویل ریکارڈ رکھتی ہے۔ اپنے جرائم کو چھپانے کے لئے وہ بھی میڈیا کا ہی سہارا لیتی ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی آئی ہے کہ ملک میں مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کی خاطر تذکرے میں آنے والے کیمپوں میں ملک دشمن اور علاحدگی پسند عناصر کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے بیشتر مسلم ممالک آنکھ بند کر کے اس چینی وضاحت کو مان بھی لیتے ہیں۔ تنظیم اسلامی کانفرنس نے کبھی اس محاذ پر چین سے سخت باز پرس نہیں کی۔البتہ الجزیرہ کے مطابق 2019 میں ایک قرارداد میں اس تنظیم نے یہ کہہ دیا تھا عوامی جمہوریہ چین کا مسلم شہریوں کے ساتھ سلوک لائق ستائش ہے۔
دوسری طرف ایک سے زیادہ مغربی ملکوں اور انسانی حقوق کے گروپ کا استدلال ہے کہ سنکیانگ میں چینی حکام کیمپوں کے اندر ایغور اور دیگر اقلیتوں کو نہ صرف تکلیف دہ حراست میں رکھتے ہیں بلکہ اُن پر تشدد بھی کرتے ہیں۔ چین ایسے سبھی الزامات کی آج بھی تردید کرتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق ایغور ہیومن رائٹس پروجیکٹ کی مرتب کردہ ایک تحقیق میں اعداد و شمار کی ایک ایسی دستاویز پر نظر ڈالی گئی ہے جس میں 2014 سے اب تک ”مذہبی تعلیمات دینے اور کمیونٹی کی قیادت سے وابستہ ہونے پر حراست میں لئے جانیوالے مساجد کے اماموں اور دیگر مذہبی شخصیات کے خلاف 1،046 مقدمات دائر کئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ کمیونسٹ چین میں مذہبی تعلیم غیر قانونی ہے۔ اس تحقیقی رپورٹ کے مطابق ایک یا دو نہیں اٹھارہ علمائے دین کی یا توجیل یا کیمپ میں قید کے دوران موت ہوگئی تھی یا پھر وہ قید سے رہائی کے فوراً بعد انتقال کر گئے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں فقط مذہبی وابستگی کی بنیاد پر کتنی شدید اذیت دی جاتی ہے۔ جن لوگوں کو قید و بند کی سزا دی جاتی ہے اُن کا بس یہ قصور ہوتا ہے کہ وہ مذہبی تعلیم دینے سے وابستہ پائے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ایغور م ترک نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ سنکیانگ کی ایغور آبادی کا تناسب 45 فیصد بتایا جاتاہے۔
اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر باربرا وُڈ ورڈ نے سنکیانگ میں ایغور اور دوسری اقلیتوں کو درپیش صورتحال کو موجودہ دور کے انسانی حقوق کے بدترین بحرانوں میں سے ایک قرار دیاہے اورچین سے پرزور مطالبہ کیاہے کہ وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کے ذمہ داران کی مشتبہ کیمپوں تک فوری اور معنی خیز رسائی یقینی بنائے۔ چین بباطن اس کے لئے کسی صورت تیار نہیں، بظاہر اُس کا کہنا ہے کہ سنکیانگ کا دروازہ سب کیلئے کھلا ہے وہاں چھپانے کے لیے کچھ نہیں، لیکن وہ ایسی کسی تفتیش کی اجازت نہیں دے گا جو یہ سوچ کر کی جائے کہ سنکیانگ میں کوئی جرم کیا جا رہا ہے۔ چین کی اس طرح کی باتوں سے صاف بُو آتی ہے کہ وہاں ایغور اور دوسری اقلیتیں محفوظ نہیں۔ ایغوروں کی وکالت کرنے والے ایک ناروے نشیں ادارے نے پچھلے سال جون میں وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ چین نے 2016 سے کوئی 518 ایغور مذہبی شخصیات اور اماموں کو داخلِ زنداں کر رکھا ہے۔
چین میں مسلمانوں کی آمد کی جہاں ایک تاریخ ہے وہیں اب وہاں ایغور نسل پر ظلم کی بظاہر وہاں ایک نئی تاریخ مرتب کی جارہی جسے اکیسویں صدی کی اب تک کی سب سے بڑی نسل کشی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس جبر اور زیادتی سے متعلق گزشتہ دنوں ایک رپورٹ سامنے آنے کے بعد اقوامِ متحدہ سے جہاں مبینہ واقعات کی چھان بین کا مطالبہ کیا جا رہا ہے وہیں امریکہ نے سنکیانگ میں نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی مبینہ سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے پچھلے سال چین کے چار اعلی حکام بشمول ایک پولٹ بیورو رکن پر پابندیاں لگادی تھیں۔ چین اس امریکی اقدام پر تلملا اٹھا تھا اور اسے داخلی امور میں مداخلت اور چین امریکہ تعلقات کے حق میں مضرت رساں قرار دیا تھا۔ حالات کے تازہ موڑ پر بھی چین اقلیتوں کے ساتھ زیادتی کے الزامات کو مسترد کرتا ہے اور اس کا بدستور یہی استدلال ہے کہ متذکرہ کیمپوں میں شدت پسندی سے نپٹنے کیلئے پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی جاتی ہے۔