لکھنؤ :(ایجنسی)
یوپی کے 75 اضلاع میں 40فیصد یعنی 30 جنرل زمرے کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (ڈی ایم) تعینات ہیں۔ ان میں سے 26 فیصد (20) ٹھاکر تو تقریباً 11 فیصد (8) برہمن ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب اگر ہم ریاست کے اضلاع میں ایس ایس پی؍ایس پی کی تعیناتی کو دیکھیں تو 18 اضلاع کی کمان ٹھاکر ذات سے تعلق رکھنے والوں کے ہاتھ میں ہے، جب کہ برہمن ذات کے ایس ایس پی اتنے ہی اضلاع میں تعینات ہیں۔
حکومت ذات پات کی بنیاد پر کرسی دینے کی حقیقت کی نفی کر سکتی ہے، لیکن افسروں کی موجودہ تعیناتی کچھ ایسا ہی اشارہ دیتی ہے۔ اب درج فہرست ذاتوں کی بات کریں تو درج فہرست ذاتوں سے صرف 4 ڈی ایم آتے ہیں۔ جبکہ 5 اضلاع کے ایس ایس پی؍ ایس پی ،ایس سی ؍ ایس ٹی کے ہیں۔
او بی سی ذات کے افسران کی پوزیشن قدرے بہتر بتائی جا سکتی ہے، کیونکہ ریاست کے 14 ڈی ایم او بی سی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ساتھ ہی 12 ایس ایس پی ؍ایس پی بھی او بی سی سے ہیں ۔ یوگی حکومت نے یادو افسران پر اعتماد نہیں کیا ہے۔ ڈی ایم اور ایس ایس پی؍ایس پی یادو کو صرف ایک ایک ضلع میں رکھا گیا ہے۔ ان میں 4 اضلاع گوتم بدھ نگر (نوئیڈا)، لکھنؤ، کانپور اور وارانسی کے پولیس کمشنر شامل ہیں۔
یوگی راج میں مسلم افسران کو کوئی ذمہ داری نہیں
یوگی راج میں لاء اینڈ آرڈر پر پورا زور دیا گیا۔ انہوں نے اپنی پسند کے ڈی ایم اور ایس ایس پی کو ان اضلاع میں تعینات کیا ہے جہاں امن و امان کی خرابی ہے۔ فری ہینڈ دے کر افسران کو جرائم کے خلاف لڑنے کی آزادی دی گئی ہے۔ ان سب کے پیچھے یوگی حکومت میں ایک بھی ضلع کی کمان مسلم افسران کو نہیں سونپی کی گئی ہے۔
ایک سکھ، ایک عیسائی بھی شامل
یوپی کے 75 اضلاع کی کمان سونپنے میں خاص بات یہ ہے کہ ایک سکھ اور ایک عیسائی شامل ہے۔ بلرام پور ڈی ایم سیموئیل پال این۔ اور شاملی کی ڈی ایم جسجیت کور ہیں۔ یہی نہیں او بی سی زمرہ میں ایک ہی آئی پی ایس موریہ ذات سے ہیں۔ ان کا پورا نام اروند کمار موریا ہے۔
ایس پی نے یادو ، بی ایس پی نے ایس سی عہدیداروں پراعتماد کیا گیاتھا
ایسا نہیں ہے کہ ذات پات کے مخصوص افسران کی تعیناتی کو لے کر صرف یوگی حکومت ہی گھیرے میں رہی ہے۔ ایس پی کے دور حکومت میں زیادہ تر یادو افسروں کو کمان دی گئی تھی۔ وہیں بی ایس پی حکومت میں ایس سی عہدیداروں پر بھروسہ کیا جاتا تھا۔