مراد آباد :(ایجنسی)
اترپردیش کے مرادآباد ضلع میں ایک عبادت گاہ پر مورتی توڑنے کے معاملے کو لے کر دو فرقوں کے لوگ آمنے سامنے آگئے، اس تنازع میں دونوں طرف سے جم کر لاٹھی – ڈنڈے چلے، جس میں پانچ لوگ زخمی ہوگئے ہیں ۔ پولیس نے اس معاملے میں 14 نامزد اور 60 نامعلوم کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔ پولیس نے تین افراد کو گرفتار بھی کیا ہے۔ اس تنازع کے بعد علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔
معلومات کے مطابق دلاری تھانہ علاقہ کے گاؤں سلیم سرائے کے رہنے والے کرن سنگھ نے پولیس کو شکایت دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بھتیجے رمیش نے دو دن قبل گاؤں کے محمد علی کو پانچ سو روپے کرایہ پر اپنی دکان دی تھی۔ . جمعرات کو کرن کا دوسرا بھتیجہ مونو دوا لینے میڈیکل اسٹور پر پہنچا تھا، جہاں پر محمد عاقب اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر ہندو مخالف باتیں کر رہا تھا۔ اس کی مخالفت کرنے پر میڈیکل اسٹور آپریٹر اور اس کے ساتھیوں نے مونو پر لوہے کی سلاخ سے حملہ کردیا۔
مارپیٹ کے دوران بچاؤ کرنے آئے لوگوں کو بھی چوٹیں آئی ہیں۔ الزام ہے کہ حملہ آور مذہبی نعرے بازی کرتے ہوئے دھرم استھل میں گھس گئے اور ایک مورتی کو نقصان پہنچایا۔ اس کی اطلاع پولیس کو دی گئی۔ موقع پر پہنچی پولیس نے تین ملزمین کو گرفتار کیا ہے ۔ دلاری تنازع کے تعلق سے ایس پی مراد آباد نے ایک بیان میں کہاکہ دو فریقوں کے درمیان کہاسنی اور مارپیٹ کے واقعہ کے معاملے میں کیس درج کرلیا گیا ہے اور تین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔
دو فرقوں کے لوگوں کے درمیان جھگڑے کے بعد ایس پی دیہات ودیا ساگر مشرا نے گاؤں کا دورہ کیا اور دونوں فریقوں سے تنازع حل کرنے کی اپیل کی۔ اس وقت کشیدگی کے پیش نظر پولیس کے ساتھ ساتھ پی اے سی فورس کو بھی موقع پر تعینات کیا گیا ہے۔ اس گاؤں میں بھی جھگڑے کے واقعات منظر عام پر آ چکے ہیں۔ چند سال قبل محرم کے جلوس کے دوران دونوں فرقے آمنے سامنے آگئے تھے۔