تحریر: سراج نقوی
سماجوادی پارٹی کے صدر اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے موجودہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ لکھنؤ کے ایک اسکول کا نام بدلنے پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ’’نام بدلنے کا بھی نشہ ہوتا ہے یہ دنیا نے پہلی بار دیکھا ہے۔نام بدلنے والے سو فیصدی بدلے جائیں گے۔‘اپنے ایک ٹویٹ میں اکھلیش نے بی جے پی اور یوگی کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس حکومت نے عوام کو صرف لوٹنے کا کام کیا ہے۔
ایسا کم ہی ہوا ہے کہ جب اکھلیش نے یوگی کے نام تبدیلی سے متعلق کسی فیصلے پر رد عمل ظاہر کیاہو۔ اس سے قبل جب سلطان پور کا نام بدلنے کی خبریں سامنے آئی تھیں تو اکھلیش نے ٹویٹ کرتے ہوئے طنز کیا تھا کہ ’’کوئی بڑی بات نہیں اگر آپ اٹاوا سے لکھنؤ آئیں تو آ پ کابھی نام بدل دیا جائے۔‘‘لیکن اس رد عمل میں بھی انھوں نے یوگی کے ذریعہ نام بدلے جانے کے فیصلوں پر جن الفاظ میں رد عمل ظاہر کیا ہے اس میں ایمانداری کم اور سیاست زیادہ ہے۔اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ یوگی کے نام بدلنے سے متعلق فیصلوںپر تنقید نہ کی جائے،بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ان فیصلوں کو صرف نشہ بتا کر معاملے کی سنگینی اور یوگی کی نیت پر سوال اٹھانے سے اکھلیش خود کو کیوں بچا رہے ہیں۔سماجوادی لیڈر وہ بات کہنے سے کیوں ڈر رہے ہیں ،جس کے سبب اس سے پہلے کچھ نام بدلے جانے کا کھیل یوگی حکومت کے ذریعہ شروع کیا گیا تھا۔نام بدلنے کی نیت ،منشاء اور سازش کو صرف نشہ کہہ کر بات کو ہلکا کرنے کی کوشش اکھلیش کیوںکر رہے ہیں۔ تازہ رد عمل لکھنؤ کے جانکی پورم میں ’ابھینو ماڈل اسکول‘کا نام بدلے جانے کے تناظر میں آیا ہے۔یوگی کے اس فیصلے کی مخالفت سماجوادی پارٹی سے وابستہ کئی ذیلی تنظیموں نے کی ہے۔ان تنظیموں نے اس فیصلے کے خلاف باقاعدہ احتجاج بھی کیا ہے۔اکھلیش نے اپنے ٹویٹ میںاس احتجاج کو جائز بتایا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ جس اسکول کام بدلنے پر سماجوادی پارٹی کی ذیلی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں اس کی تعمیر کا کام اکھلیش یادو کے دور اقتدار میں 2016 میں ہوا تھا۔اب یوگی نے اسکول کا نام بدل کر اٹل بہاری واجپئی کے نام پر رکھنے کی بی جے پی رکن اسمبلی نیرج بورا کی تجویز کو منظور کر لیا ہے ا ور سماجوادی پارٹی اپنے لیڈر کے دور اقتدار میں بنے اسکول کا نام بدلے جانے پر چراغ پا ہے۔سماجوادی پارٹی کی ناراضگی قطعی جائز اس لیے ہے کہ اس کے دور اقتدار کی حصولیابیوں پر پانی پھیرنے کا کام یوگی حکومت کر رہی ہے۔لیکن سماجود ی پارٹی کے اس احتجاج کے جائز ہونے کے باوجود اس پر سوال اٹھانے کی ضرورت اس لیے ہوئی کہ کیا صرف اس ایک سیاسی بنیاد پر نام بدلنے کے فیصلے پر تنقید کر دینا کافی ہے؟کیا فرقہ وارانہ منافرت اور متعصب ذہنیت کی بنیاد پر جن شہروں کے نام بدلے گئے اس پر سماجوادی پارٹی کو آواز اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی۔کیا مسلم دور اقتدار کی تہذیب و ثقافت کو تباہ کرنے کی نیت سے کیے گئے نام تبدیلی کے کھیل کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرکے اکھلیش نے اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو مٹانے کی فرقہ پرست طاقتوں کی سازش کو اپنی بلاواسطہ حمایت دے کر جمہوریت اور سیکولرزم کی قدروں کو کمزور نہیں کیا؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کی مرکزی و ریاستی قیادتیں جس طرح سابقہ حکومتوں کی حصولیابیوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں،اس کے سبب اپوزیشن پارٹیوں میںبجا طور پر غم و غصّہ ہے،لیکن انصاف کا تقاضہ یہ بھی ہے کہ اپنی حصولیابیوں پر بی جے پی حکومتوں کی ڈاکہ زنی کے خلاف احتجاج کرنے والے مغل سرائے،الہ آباد ،فیض آباد یا اب علی گڑھ،سلطان پور سمیت کئی شہروں کے نام تبدیل کرنے کی بی جے پی کی سیاست کی مخالفت بھی کرتے ۔ اس لیے نہیں کہ اس کا تعلق راست یابالواسطہ مسلم دور اقتدار سے ہے ،بلکہ اس لیے کہ یہ نام ہماری صدیوں پرانی مشترکہ تہذیب و ثقافت کا حصّہ بن چکے ہیں،اور تہذیب و ثقافت کو بدلنے کی کوششیں کسی بھی ملک کو طویل مدتی نقصان سے دوچار کرتی ہیںاور سماج میں انتشار پیدا کرتی ہیں۔ایسی تمام کوششوں کے خلاف صف آرا ہونا ہر محب وطن شہری اور سیکولرزم کی دعویدار ہر پارٹی کا جمہوری فریضہ ہے۔اس ملک کا حسن کسی ایک علاقے،کسی ایک زبان یا کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کی کوششوں کا نتیجہ نہیں ہے۔اسی لیے اگر کوئی بھی ایسی کوشش ہوتی ہے کہ جس کے ہماری گنگا جمنی تہذیب پر منفی اثرات پڑتے ہوں تو اس کے خلاف آواز بلند کی جانی چاہیے۔
اسکول کا نام بدلنے کے معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اکھلیش نے اسے ایک نشے سے تعبیر کیا ہے،لیکن یقین جانیے کہ یہ نشہ نہیں بلکہ بے عمل لوگوں کا احسا س کمتری ہے۔یہ انتقامی جذبے کی بد ترین شکل ہے کہ اقتدار کے زعم میںاپنے سیاسی مخالفین کی مثبت کوششوں پر بھی پانی پھیرنے کی کوشش کی جائے۔بی جے پی حکومتوں کی حکمت عملی پر غور کریں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آ جائیگی کہ اس نے ایک طرف اپنے سیاسی حریفوں کی آوازوں کو دبانے کے لیے مختلف حربے اپنائے ہیں تو دوسری طرف اپنا ووٹ بنک بنانے کے لیے فرقہ وارانہ زہر پھیلانے والوں کی راست یا بالواسطہ حوصلہ افزائی کی ہے۔اپنے ہم نوائوں کے بدترین اور انتہائی سنگین جرائم کی پردہ پوشی کی ہے لیکن مخالفین کے معمولی قصور پر بھی انھیں پریشان کیا جا رہاہے۔گجرات میں اڈانی گروپ کے زیر انتظام بندرگاہ سے بڑی مقدار میں ہیروئین کی برآمدگی کے باوجود درباری میڈیا کی خاموشی اور اس سے بھی بڑھ کر حکومت کی اس معاملے میں کسی سخت کارروائی سے دامن بچانے کی کوشش اس کا تازہ ثبوت ہے۔
بہرحال جہاں تک لکھنؤ کے ایک اسکول کانام سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے نام پر رکھے جانے کی کوشش کا سوال ہے تو الیکشن سے پہلے اپوزیشن کی ایک بڑی پارٹی کے حوصلے پست کرنے کی ایک کوشش کے سوا یہ اور کچھ نہیں ۔ورنہ جہاں تک اٹل بہاری واجپئی سے بی جے پی کے لگائو کا تعلق تو اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے،لیکن اس کے لیے یہ مناسب موقع نہیں ۔چاہے نام بدل کر مسلم ثقافت کو مٹانے کی کوششوں کا معاملہ ہو یا پھر اپوزیشن پارٹیوں کی سابقہ حکومتوں کے دور کے تعمیری کاموں کو اپنی پارٹی کے لیڈروں کے نام سے منسوب کرنے کی بات ،ان تمام کوششوں کا مقصد منفی پرپگنڈے کے سہارے انتخابی جیت حاصل کرنا ہی ہے۔
[email protected]
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)