شاہنوازبدرقاسمی
سن 2006 کی بات ہے ہم دارالعلوم وقف دیوبند میں سال دوم عربی کے طالب علم تھے، ایک دن ہمارے استاذ محترم نے مجھ سے پوچھا کیا تم مولوی محفوظ الرحمٰن سہرساوی کو جانتے ہو؟ میں نے کہا حضرت جانتے تو نہیں ہے لیکن اب جان جائیں گے، پہر معلومات کرنے پر پتہ چلا مفتی محفوظ الرحمن عثمانی ہمارے علاقہ کے ایک مشہور عالم دین اور سوپول میں جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ نامی ایک بڑے ادارے کے ذمہ دار ہیں، اسی دوران کسی تقریب میں شرکت کیلئے مفتی صاحب دیوبند تشریف لائے جہاں میری پہلی ملاقات ہوئی اور اس کے بعد دن بدن قریب ہوتے چلے گئے۔
مفتی محفوظ الرحمٰن عثمانی کو گزشتہ پندرہ سالوں میں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، وہ ہمہ جہت اور انقلابی شخصیت کے مالک تھے ، وہ اپنی ذات میں ایک تحریک اور انجمن تھے، جب بھی ملتے علاقائی مسائل پر ضرور توجہ دلاتے۔
مفتی محفوظ الرحمن عزم اور حوصلے کاایک ایسا معتبر نام ہے جو دنیا کی ایک بڑی آبادی کو فتح کرنے میں کامیاب ثابت ہوئے، انہوں نے ذاتی ترقی کے تمام ترمواقع کو چھوڑ کر ایک ایسے میدان کاانتخاب کیا جہاں مسائل ہی مسائل اور مشکلات ہی مشکلات ہوتے ہیں۔
بہار کے جس پسماندہ اور سیلاب متاثرہ علاقہ سوپول کے مدھوبنی گاؤں میں انہوں نے 1989 میں جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ قائم کیا کبھی تصور بھی نہیں ہوگا کہ وہ اپنی زندگی میں ہی اسے ایک تناور درخت کی شکل میں دیکھ لیں گے، جامعہ کو دیکھنے کے بعد یقین نہیں ہوتا ہے کہ یہ بہار کا ایک دینی ادارہ ہے، جدید ترین سہولیات سے آراستہ کئی عالیشان عمارتوں کے درمیان جامعہ کی خوبصورت مسجد کو دیکھ کر یقیناً حضرت مفتی صاحب کو دعا دینے پر آپ بھی مجبور ہوجائیں گے۔
جامعہ جائے وقوع کے لحاظ سے بہار کے تین اہم خطے کوسی، سیمانچل اور متھلانچل کو جوڑتا ہے یہ صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ اس علاقہ کے لاکھوں لوگوں کیلئے رشدو ہدایت اور دینی و فکری تربیت کا ایک عظیم مرکز بن چکا ہے جہاں سے کئی کامیاب تحریک کی شروعات ہوئی۔ مفتی صاحب نے اپنے چاہنے اور ماننے والوں کو کبھی مایوس نہیں کیا اور آخرکار طویل جدوجہد کے بعد جنگل میں منگل کرکے دیکھا دیا، وہ ناممکن کو بھی ممکن بنانے کا ہنر جانتے تھے، انہوں نے اپنے دائرہ کار کو اتنا پھیلا لیا تھا کہ یہ طے کرنا مشکل ہے آپ کن کن حلقوں میں کتنا مقبول تھے، وہ روایتی انداز سے ہٹ کر پروفیشنل طریقہ پر کام کرنے کے عادی تھے، ہر کام کیلئے منصوبہ بندی اور خاکہ تیار کرتے اور پھر طے شدہ پلان کے مطابق کام کرتے۔
کوسی کا وہ علاقہ جہاں بڑے بڑے کامیاب نہیں ہوئے مفتی صاحب اپنی حکمت، ٹھوس منصوبہ بندی اور دوراندیشی سے کامیاب ہوگئے۔
مفتی صاحب نے اس علاقہ میں قادیانیت کے خاتمہ، ارتداد کے روک تھام، مکاتب کا نظام اور ضرورت مندوں کی ہرممکن مدد کیلئے جو مثالی کام کئے وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، تدفین کے وقت اس علاقے کے ہزاروں لوگوں کی چیخ و پکار سن کر یقین نہیں ہورہا تھاکہ وہ مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کیلئے اس قدر روئیں گے۔
مفتی صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ کام کے افراد کو تلاش کرکے جوڑنے کا تھا، جن سے جو کام لینا چاہتے تھے وہ ضرور لے لیتے تھے، ان کے تعلقات کا اندازہ لگانا مشکل ہے، وہ دور جدید کے تمام تر حالات سے اچھی طرح واقف تھے، کم عرصے میں کئی عظیم خدمات انجام دئیے۔
جب ضلع سوپول کے اطراف میں ایک قادیانی ڈی ایم کی وجہ سے قادیانیت کا فتنہ پھیلنے لگا ،مفتی صاحب ؒ ناموس رسالت کے علمبردار بن کر اس فتنہ کو جڑ سے ختم کرنے کی جو مہمچلائی الحمدللہ اس کی برکت کا نتیجہ ہے کہ یہ علاقہ مزید کئی فتنوں سے بچ گیا۔
وہ کم سے کم دنوں میں زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہتے تھے، ہر اچھے کام کا ساتھی بننا چاہتے تھے، بہتر کام کرنے والوں کی مخلصانہ مدد کرتے تھے، وہ خوف زدگی اور مایوسی کے کبھی شکار نہیں ہوئے، تنے تنہا انہوں نے وہ کام کردیکھا دیا جو بڑے بڑے ادارے مل کر نہیں کرپاتی ہے، ان کے اندر ایک جنون تھا وہ جامعۃ القاسم کو جامعہ اکل کوا کی طرح ایک عظیم تعلیمی مرکز کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے، ان کی خواہش اور منصوبہ بندی سے ان کی فکر اور جدوجہد کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے، وہ ہمیشہ باصلاحیت نوجوانوں کی قدر کرتے ان سے خوب کام لیتے اور ہرممکن ان کا خیال بھی رکھتے، مفتی صاحب بعض خوبیوں کی وجہ سے کئی حلقوں میں ممتاز تھے، تعلقات نبھانے میں کبھی بخالت سے کام نہیں لیتے، اخلاقی اعتبار سے بہت باذوق اور خوش مزاج ذہن کے تھے، وہ چہرہ شناسی میں مہارت رکھتے تھے۔
جب بھی مفتی صاحب کوئی اہم پروگرام کرتے ضرور میری حاضری ہوتی، اس راستے سے جب جب گذر ہوتا ہرحال میں جامعۃ القاسم میں جانا ہوتا، لاک ڈاؤن کے زمانے میں بھی مفتی صاحب سے کئی ملاقات رہی، ہمیشہ مجھ جیسے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور بنیادی کام پر توجہ دلاتے۔
مفتی محفوظ الرحمن عثمانی نے کئی ایسے بے سہاروں کو سہارا دینے کا کام کیا جو آج کامیاب زندگی جی رہے ہیں، وہ خود بہی ایک عالم دین تھے اور علماء نواز بہی، بہار کے کئی سیاسی لیڈران کی ترقی اور کامیابی میں مفتی صاحب کا اہم کردار ہے، ان کے تعلقات صرف مذہبی علماء سے نہیں بلکہ کئی بڑے سیاسی لیڈران سے بہی تہا، انہوں نے ہمیشہ خود کو ایک دینی ادارہ کا خادم سمجھ کر کام کیا کبہی بہی سیاسی تعلقات کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا-
مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ عملی کام پر یقین رکھتے تھے، ان کے پاس ایسے پڑھے لکھے باصلاحیت نوجوانوں کی ایک ایسی ٹیم تھی جو بڑے بڑے اور مشکل سے مشکل مسائل کا آسان حل نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، انہوں نے صرف جامعہ کی تعمیر وترقی پر توجہ نہیں کی بلکہ اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے بہی ہرممکن کوشش کی_
مفتی صاحب صرف 61سال کی عمر میں اس کورونا وباء کے بہانے اس دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن انہوں نے جو خدمات اور کارنامے انجام دئیے اس کے ذکر جمیل کیلئے یہ چند سطور نہ کافی ہیں، ہم حضرت مفتی صاحب نوراللہ مرقدہ کے بڑے صاحبزادے اور جامعتہ القاسم کے نائب مہتمم برادرم قاری ظفر اقبال مدنی، معتمد خاص مفتی انصار قاسمی اور بہائی شاہجہاں شاد سمیت تمام محبان جامعہ سے یہی درخواست کرتے ہیں کہ حضرت مفتی صاحب نے جو خاکہ تیار کیا تہا اس خاکے میں رنگ بھرنا اور اسے ترقی دینا ہی اصل خراج عقیدت اور ان سے سچی محبت ہے، اللہ پاک حضرت مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کے درجات کو بلند فرمائے اور تمام پسماندگان و متعلقین کو صبر دے، خاص طور پر جامعتہ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کو ان کا نعم البدل عطاء فرمائے_