تحریر:مسعودجاوید
کیا ملک میں مسلمانوں کے حقیقی ملی نمائندے ہیں ؟ تحریر: مسعودجاوید اکثریتی فرقہ کی ایک بہت بڑی تنظیم یا اثر ونفوذ رکھنے والی جماعت اگر اقلیتی فرقہ سے یہ کہے کہ آپ کے مسائل کیا ہیں اور آپ کی شکایات کیا ہیں اس تعلق سے ہم بات چیت کرنا چاہتے ہیں اس لئے آپ ایسے چند عوامی نمائندوں کے نام بتائیں جن کی بات سنی جاتی ہو اور اس پر عمل کیا جاتا ہو ۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہم میں سے کوئی ہے جو ان نمائندوں کی نشاندہی کرے ! آپ مانیں یا نہ مانیں نمائندگی کا بحران تو ہے۔ اس قدر ملی سماجی مسلکی اور علاقائی اختلافات ہیں کہ اکثریتی فرقہ کی گفت و شنید کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔
ہماری کیڈر بیسڈ کوئی تنظیم بھی نہیں جس کے ملک کے طول و عرض میں دفاتر ہوں اور جن دفاتر کے ذریعے عام لوگوں کی رائے معلوم کی جا سکے کہ آخر وہ چاہتے کیا ہیں اور اس کی حصول یابی کی صورت کیا ہو ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ملی قیادت ، دانشوران ، انٹلکچولس ، علماء اور سیاسی رہنما ایک پلیٹ فارم پر سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی متحدہ لائحہ عمل تیار کریں ، نمائندہ وفد کی تشکیل ہو جو اکثریتی فرقہ کی تنظیموں کے رہنماؤں سے اور صدر ، وزیراعظم اور دیگر چوٹی کے وزراء اور اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کرے ۔ ان کی طرف سے کوششیں ہو رہی ہیں لیکن ہم ان میں حصہ لینے والوں کی باتیں نہیں سنتے ہیں اس لئے کہ وہ زمینی سطح پر مسلم عوام سے کبھی نہیں جڑے۔ مسلمانوں کے دکھ درد میں کبھی شامل نہیں ہوئے۔
ان کی اعلیٰ ڈگریاں ، اعلیٰ عہدے ، اعلیٰ تصنیفات ، اعلی دینی حسب و نسب اور اعلیٰ صحافت عالیشان دفاتر تک محدود رہے ۔ مسلمانوں کے زخموں کے مرہم نہیں بنے۔ حقیقت تو یہ ہے جب عام لوگوں کی ان تک رسائی بھی دشوار ہو تو عام لوگ ان کی بات کیوں سنیں۔ دینی، ملی، سیاسی قیادت اور دانشوروں کے رویے سے عوام میں اس قدر مایوسی ہے کہ اب انہوں نے اپنے حالات کو اللہ اور زمانے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ یعنی ۔۔۔۔۔۔۔۔آخری بات ہے مرنے کے سوا کیا ہوگا!دوسری طرف عوام کا رویہ کم افسوس ناک نہیں ہے۔ رہنمائی کرنے کے لئے سامنے آنے والی ہر شخصیت کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اس لئے حالات کی سنگینی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کسی حد تک ایک ایسا پلیٹ فارم تھا جس پر مسلم رہنما ، قطع نظر مسلک مشرب اور علاقہ ، سر جوڑ کر بیٹھتے تھے ۔ مسلم مجلس مشاورت ملک گیر ملی مسئلہ پر مسلم تنظیموں کے سربراہان، مسلم ممبران پارلیمنٹ، مسلمانوں میں اثر ورسوخ رکھنے والی شخصیات اور کہنہ مشق معتبر صحافیوں اور مشہور سماجی کارکنان اور خیر خواہان ملت کو طلب کر کے مشورے کرتی تھی۔ افسوس یہ دونوں تنظیمیں اب اس طرح فعال اور متحرک
نہیں ہیں۔ پرسنل لاء بورڈ تو کسی طرح باقی ہے مشاورت اپنے برے دور سے گزر رہی ہے۔
یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے