امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ و طالبات کی غزہ جنگ کے خلاف جاری تحریک کو دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی پذیرائی ملنے کی لہر تیز تر ہے۔
امریکہ سے باہر کے ملکوں کی یونیورسٹیاں اور کالج بھی مظاہرین کے ساتھ یہ طے کر رہے ہیں تاکہ اسرائیل کے ساتھ کیے گئے معاہدوں سے علیحدگی کر سکیں۔
تاہم امریکہ کی طرح کئی دوسرے ملکوں خصوصا یورپی ملکوں میں کچھ تعلیمی اداروں نے بھی پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کا استعمال کرتے ہوئے جنگ کی مخالفت کرنے والے مظاہروں کو روک دیا ہے اور جبرا طلبہ کے احتجاجی کیمپ اکھاڑ دیے ہیں۔ کئی ملکوں میں دیگر طلبہ گروپوں کے ساتھ مل کر جنگ مخالف طلبہ کو دباؤ میں لانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔
کئی تعلیمی اداروں نے جنگ مخالف طلبہ کے خلاف سوچ رکھنے والے طلبہ کو ساتھ ملا کر اسرائیل کے ساتھ جڑی ہوئی ملکی کمپنیوں اور اپنے تعلیمی اداروں کے معاہدات کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔
اس سلسلے میں بعض تعلیم گاہوں نے طلبہ کے درمیان ووٹنگ کرا کے جنگ مخالف طلبہ کی طاقت کو تقسیم کرنا چاہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کئی تعلیمی اداروں نے ووٹنگ کے لیے شیڈول جاری کیا ہے۔ اس کا مقصد تعلیمی اداروں میں طلبہ گروہوں کے درمیان تقسیم پیدا کر کے غزہ جنگ کے مخالفین کو کمزور کرنا ہے۔
اگرچہ ہر تعلیمی ادارے کے جنگ کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ الگ الگ ہیں اور وہ اپنے مطالبات کو بھی الگ الگ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ تاہم اپنی تعلیم گاہوں کے اسرائیل کے ساتھ معاہدوں کے خاتمے کا مطالبہ اور جنگ بندی کا مطالبہ تقریباً ہر جگہ یکساں ہے۔
یہ طلبہ اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے علاوہ اپنے اپنے انداز میں اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والے ملکوں اور کمپنیوں کی بھی مخالفت کررہے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے ہتھیار نہ بیچیں۔ جبکہ اسرائیلی مصنوعات کے ساتھ ساتھ ان ملکوں کی مصنوعات کا بھی بائیکاٹ کرنے کا کہہ رہے ہیں جو اسرائیل کے ساتھ مدد و تعاون کے گہرے رشتے میں منسلک ہیں۔
بعض یونیورسٹیوں نے طلبہ کے ان مطالبات سے اتفاق کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ریور سائیڈ نے اپنی سرمایہ کاری کے حوالے سے چیزوں کو شفافیت کے ساتھ ظاہر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ نیز ہتھیار بنانے والی ایسی کمپنیوں جن کے ہتھیار اسرائیل استعمال کرتا ہے کے ساتھ یونیورسٹی نے اپنے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے ایک ٹاسک فورس بنائی ہے۔
دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل نے دوسرے ملکوں میں اپنے مطالعاتی پروگراموں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کئی جگہوں پر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ یونیورسٹیوں نے سرمایہ کاری سے متعلق اپنی معلومات کو عوامی ویب سائٹس پر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں کیلیفورنیا یونیورسٹی نے طلبہ و اساتذہ کو بعض معاملات کی شفافیت کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کے حوالے سے جمعہ کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘یونیورسٹی آف کیلیفورنیا بیرون ملک اپنے مطالعے کے پروگرام پر بھی نظر ثانی کرے گی۔ نیز اس کے بزنس سکول نے کئی عالمی پروگرام بند کر دیے ہیں۔ جن میں یونیورسٹی کے طلبہ کو مصر، اردن اور اسرائیل جانے کے موقع فراہم کرنے والے پروگرام بھی شامل تھے۔’
یو سی آر’ نے فلسطینیوں کی وکالت کا خاتمہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیز یونیورسٹی نے اپنی سرمایہ کاری کو ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ 5 فلسطینی طلبہ کو تعلیمی وظائف فراہم کرنے سے اتفاق کیا ہے۔ جبکہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے طلبہ کے لیے یونیورسٹی کے اندر کمیونٹی کی سرگرمیوں کے لیے جگہ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیز طلبہ کو یہ بھی اجازت دی گئی ہے کہ وہ یکم جون تک جنگ بندی کے حق میں اپنے پرامن احتجاجی کیمپوں کو جاری رکھ سکیں گے۔
اسی یونیورسٹی نے پولیس کے ذریعے احتجاج روکنے کی کوششوں کے چار دن بعد طلبہ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت طلبہ کو اپنے خیالات رکھنے اور اظہار خیال کا حق دینے پر اتفاق کیا ہے۔
یونیورسٹی میں قائم سکول نے یہ بھی طے کیا ہے کہ فلسطینی طلبہ کو درپیش کسی خطرے میں جانے کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔ نیز مسلمانوں اور یہودیوں کے عقیدے کے مطابق قائم دفاتر میں ورکنگ کو بہتر بنانے کے لیے مزید فنڈز کی فراہمی کی جائے گی۔
یونیورسٹی کے صدر مائیکل شل نے کہا ہے ‘یہ معاہدہ آگے بڑھنے کے لیے اور راستوں کا فاصلہ طے کرنے کے لیے رہنمائی کرتا رہے گا۔ مزید یہ کہ اس معاہدے کے ذریعے آزادانہ رائے کے تحت جگہ ممکن ہو سکے گی۔
براؤن یونیورسٹی
براؤن یونیورسٹی کے طلبہ نے اتفاق کیا ہے کہ وہ اپنے کیمپ اتار لیں گے اور اس کے بدلے میں یونیورسٹی بورڈ طلبہ کو اسرائیل کے ساتھ یونیورسٹی کے معاہدوں کے خلاف ووٹ کرنے کا حق دے گا۔