قاسم سید
ممتاز مسلم رہنما اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی عاملہ کے سینئر رکن ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کہاکہ بورڈ کو چاہئے کہ وہ گیان واپی مسجد معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے ۔ اسی کے ساتھ انہوں نے کہاکہ حالات کاتقاضہ ہے کہ بورڈ عاملہ کی میٹنگ جلد بلائی جائے۔ اس سلسلے میں صدر بورڈ مولانا سید رابع حسنی کو انہوں نے ایک خط بھی لکھا ہے۔
’روز نامہ خبریں ‘سے گفتگو کرتے ہوئے مسلمانوں کی بڑھتی تشویش کے حوالے سے انہوں نے زور دے کر کہاکہ مسلم قیادت نے گیان واپی مسجد کو لاوارث نہیں چھوڑا ہے۔ مقامی کمیٹی اور اترپردیش سنی سینٹرل وقف بورڈ فریق ہیں اور مقدمہ لڑرہے ہیں۔ مگر عدالت نے گیان واپی مسجد – کاشی وشوناتھ مندر معاملے میں محکمہ آثار قدیمہ کو پانچ رکنی ٹیم بنا کر کھدائی اور سروے کا جو حکم دیا ہے اس کانوٹس لیا جانا ضروری ہوگیا ہے۔
گیان واپی مسجد پر آخر خاموشی کیوں نظر آرہی ہے، اب تک کسی بھی جماعت نے اس بارے میں کچھ کیوں نہیں سوچا ؟ ڈاکٹر الیاس نے کہاکہ یہ تاثر غلط ہے۔ ہماری پوری نظر ہے ۔ ایک مقامی تنظیم اسےدیکھ رہی ہے جیسے بابری مسجد کا معاملہ دوسرے لوگ دیکھ رہے تھے۔بعد میں ہی بورڈ نے اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔بہرحال ان کاکہنا ہےکہ عاملہ کی میٹنگ میں یہ معاملہ زیر بحث آئے گا۔ اسے ہرحال میں ہائی کورٹ میں چیلنج کرنا ہوگا۔ بورڈ کرے گا یا نہیں یہ عاملہ میں طے ہوگا۔
قاسم رسول الیاس نے کہاکہ اصولاً اورعملاً یہ کام مرکزی سرکار کو کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ آئین کا تحفظ اس کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ قطع نظر اس کی جس زمین پر مسجد بنی ہے وہ جائز ہے یا ناجائز ، اس ایکٹ کی موجودگی میں مقدمہ درج ہونا ہی غیر آئینی ،غیر قانونی اور غیر ضروری ہے اور درج ہوبھی گیا تھا تو پہلے مرحلہ میں ہی خارج ہوجانا چاہئے تھا اب مقامی عدالت نے ایسا کیوں کیا یہ تو وہی بتا سکتی ہے۔ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ اگر خاموشی اختیار کی گئی تو آگے کاراستہ کھل جائے گا کیونکہ ایسے عناصر کے پاس تین ہزار مساجد کی فہرست ہے۔
قاسم رسول نے کہاکہ میرے ذاتی رائےیہ ہے کہ ہندوؤں کے دھرم گروؤں سے بات کرنی چاہئے۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کی تاریخ کا ہی نہیں ہے، پھر تو جین اور بودھ مندروں کا بھی سوال اٹھے گا، جنہیں ماضی میں بڑی تعداد میں توڑا گیا ہے۔ یہ پنڈارا بکس ہے اور اگر کھل گیا تو کہاں جاکر روکے گا کہہ نہیں سکتے۔
واضح رہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر معاملے میں ضلع عدالت نے جب سے محکمہ آثار قدیمہ کو پانچ رکنی ٹیم بنا کر کھدائی کرنے اور سروے کاحکم دیا ہے۔ اقلیتی طبقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور اسے سارا معاملہ بابری مسجد مقدمے کی طرز پر جاتا ہوا نظر آرہا ہے۔ مزید یہ کہ اس پورے قضیہ میں مسلم جماعتوں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کی خاموشی تشویش میں اضافہ کرنے والی ہے، گرچہ بورڈ کے کارگزار جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک بیان جاری کرکے کہا ہے کہ تشویش میں مبتلا ہونے کی قطعی ضرورت نہیں، کیونکہ 1991 کے پلیس آف ورشپ ایکٹ کے تحت 1947 میں موجود ہرطرح کی مذہبی عبادت گاہوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے۔
امید یہ کی جاتی ہے کہ جوکوتائی بابری مسجد معاملے میں ہوچکی ہے اسے دوہرا نہیں جائے گا۔